ایک ادیب ایک کہانی: انسان کی عمر

July 21, 2024

بچوں اور بڑوں کے معروف ادیب اور شاعر چراغ حسن حسرت کا قلمی نام ’’سند باد جہازی‘‘ تھا۔ انہوں نے بچوں کے لیے دو درجن سے زائد کتا بیں اور کئی خوبصورت نظمیں تخلیق کیں، جن میں قائداعظم، تین دریا اور طرابلس کی شہزادی بے انتہا مقبول ہوئیں۔ علامہ اقبالؒ کی خواہش پر چراغ حسن حسرت نے بچوں کے لیے تاریخی کہانیاں اور سوانحی کتا بچے بھی تحریر کیے۔ ان کتابچوں کاانداز بیان اور زبان نہایت سلیس اور دلنشیں ہے۔

ان میں بچوں کی تربیت اور تعمیر سیرت کے پہلو کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ یہ کہانیاں نہ صرف سبق آموزبلکہ بچوں کو اردو زبان سکھانے اور مزید مطالعہ کی طرف راغب کرنے میں بہت مفید ہیں۔ بامحاورہ نثر لکھنے میں چراغ حسن حسرت کا جواب نہیں تھا، اُنہیں درسی کتابوں کے ترجمے کرنے میں بھی دسترس حاصل تھی۔ وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ اُردو ادب و صحافت میں آپ کی لطافت نگاری کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔

چراغ حسن حسرت 1904 ء کو پونچھ (بمیار)میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کی، عملی زندگی کا آغاز کلکتہ میں اخبار نویس کی حیثیت سے کیا۔ 1925ء میں کلکتہ سے ایک ادبی مجلہ ”آفتاب“ کے نام سے جاری کیا۔ بعد ازاں لاہور آگئے جہاں زمیندار اور احسان میں کام کیا۔ لاہور سےہی 1936ء میں مشہور ادبی فکاہی ہفت روزہ ”شیرازہ“ بھی جاری کیا۔ 1940ء میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔

دوسری جنگ عظیم میں فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں بطور میجر وابستہ ہو کر اخبار”جوان“ کے مدیر کی حیثیت سے سنگاپور چلے گئے۔ جنگ کے اختتام کے بعد لاہور آ گئے۔ 1948ء میں روز نامہ امروز کے پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اخباری کالموں کے علاوہ کئی مشہور کتابیں لکھیں۔

زندگی کے آخری دو تین سال کراچی میں قیام کیا اور ریڈیو کے لیے قومی پروگرام مرتب کرتے رہے۔ علالت کے باعث واپس لاہور چلے گئے۔ 26جون 1955ء میں اُن کا انتقا ل ہوا۔ پیارے بچو! آج ایک ادیب ایک کہانی میں چراغ حسن حسرت کی کہانی بہ عنوان ”انسان کی عمر“ پڑھیں ۔

پیارے بچو! جب خدا نے دنیا بنائی اور اس میں بسنے کے لئے انسان، چوپائے پرندے اور دوسرے جانور پیدا کئے تو ان سب کی الگ الگ عمریں مقرر کی گئیں۔ کسی کی پانچ برس، کسی کی دس برس، کسی کی چالیس۔ سب نے تو ہنسی خوشی یہ فیصلہ سنا لیکن انسان، بیل، کتے اور بگلے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ خدا نے ان چاروں کی عمر ایک جتنی یعنی چالیس برس مقرر کی تھی۔

سب سے پہلے انسان خدا کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ، ’’مجھے دنیا میں بہت سے کام کرنے ہیں، چالیس برس میں کیا کیا کروں گا، اس لئے میری عمر بڑھائی جائے‘‘۔

جواب ملا۔’’ تمہاری عمر یوں تو بڑھائی نہیں جاسکتی، ہاں اگر کوئی جانور اپنی عمر میں کمی کرانا چاہے تو اس کی عمر کا کچھ حصہ کاٹ کر تمہاری عمر میں شامل کردیا جائے گا۔‘‘اس کے بعد بیل آگے بڑھا اور کہا،’’ میری عمر بھی چالیس برس مقرر ہوئی ہےجو بہت زیادہ ہے۔ میں اتنی مدت جی کے کیا کروں گا؟ آرام کی زندگی ہوتی تو چالیس برس بھی جوں توں کرکے گزار لیتا لیکن میرے ذمے بوجھ اٹھانے، زمین جوتنے اور انسان کی خدمت کرنے جیسے کٹھن کام ہیں، مجھ میں اتنی سکت کہاں کہ چالیس برس تک اتنی بڑی بڑی مصیبتیں جھیلتا رہوں۔‘‘

خدا نے حکم دیا کہ،’’ بیل کی عمر میں سے بیس برس کاٹ کا انسان کی عمر میں شامل کردیئے جائیں‘‘۔ انسان اب بھی مطمئن نہ ہوا اور اس انتظار میں چپ چاپ کھڑا رہا کہ شاید کسی اور جانور کی عمر میں سے کچھ حصہ مل جائے۔

بیل کے بعد کتے کی باری آئی۔ اس نے بھی کہا کہ چالیس برس بڑی لمبی مدت ہے، اتنے عرصے تک لوگوں کے گھروں کی رکھوالی کرنا اور رات دن بھونکتے رہنا بڑا مشکل کام ہے۔ میں تو اس خیال ہی سے کانپ اٹھتا ہوں کہ مجھے دنیا میں چالیس سال رہنا پڑے گا۔‘‘

حکم ہوا کہ، اس کی عمر میں سے بھی بیس برس گھٹا کے انسان کی عمر میں شامل کردیئے جائیں۔‘‘

انسان خوش تو بہت ہوا کہ چلو بیس برس اور مل گئے۔ لیکن اب بھی وہ اس خیال سے وہیں کھڑا رہا کہ شاید چند برس اور دنیا میں رہنے کا موقع مل جائے۔سب سے آخر میں بگلا پیش ہوا۔ اس نے عرض کی کہ، مجھے چالیس برس تک آنکھیں بند کئے ایک ٹانگ پر پانی میں کھڑا رہنا پڑا تو میں جیتے جی مرجاؤں گا، اس لئے میری عمر بھی آدھی کردی جائے‘‘۔ خدا نے بگلے کی درخواست منظور کرلی اور اس کی عمر سے بیس برس کم کرکے انسان کی عمر میں بڑھا دیئے گئے، اس طرح انسان کی عمر چالیس کی جگہ سو برس ہو گئی۔

غور کیا جائے تو انسان کی اصل عمر چالیس برس ہی ہے۔ اس عمر تک اس کی طبیعت بڑی چونچالی رہتی ہے، جو کھاتا ہے ہضم ہوتا ہے، پھر سیرو تفریح کے لئے خاصی فرصت بھی مل جاتی ہے۔ اس کے بعد بیس برس تک گھر کے کام کاج میں بیل کی طرح جتا رہتا ہے اور بال بچوں کے لئے روزی مہیا کرنے کی فکر میں اپنے آرام کا خیال بھی نہیں رہتا۔ اب اس میں بیل کی سی خوبی پیدا ہوجاتی ہے۔ آہستہ آہستہ طاقت بھی کم ہوتی جاتی ہے، پھر اس میں اتنی سکت باقی نہیں رہتی کہ گھر کا نظم و نسق چلا سکے۔

ساٹھ برس کے بعد جو بیس سال کا زمانہ آتا ہے۔ وہ کتے کی عمر میں سے کاٹ کے انسان کی عمر میں شامل کیا گیا تھا۔ اس لئے کتے کی بہت سی خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اب اس میں پہلے جیسی طاقت اور ہمت نہیں رہتی۔ طبیعت میں چڑچڑا پن آجاتا ہے اور کتے کی طرح کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔

اس کٹ کھنے پن کی وجہ سے عزیز رشتہ دار بھی اس سے کم ملتے ہیں۔ کنبے کے سب لوگ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جہاں تک بن پڑے اس سے دور ہی رہیں۔ جہاں انسان اسی برس کو پہنچا بگلے کی طرح سر اور داڑھی کے بال سفید ہوگئے۔

اب اس کی طاقت اور ہمت بھی جواب دے جاتی ہے۔ گھر کا کوئی کام اس سے نہیں ہوسکتا۔ بگلے کی طرح آنکھیں بند کئے پڑا رہتا ہے۔ کنبے کے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ غرض اس میں بگلے کی بہت سی عادتیں آجاتی ہیں۔ کیوں نہ ہو۔ آخر یہ بیس سال بگلے کی عمر میں سے کاٹ کے انسان کی عمر میں جو شامل کئے گئے تھے۔