سیاسی جماعت انتشار کیوں چاہتی ہے؟

July 10, 2024

گزشتہ کالم میں، میں نے شہباز حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ نئے انسداد دہشت گردی آپریشن کیلئے اے پی سی بلا کر قومی اتفاق پیدا کیا جائے اور اس میں تحریک انصاف کو بھی مدعو کیا جائے۔اچھی بات ہے حکومت نے اے پی سی بلا لی ہے اور دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی اے پی سی میں شرکت کا عندیہ دیا ہے۔ عمران خان کی جماعت نے پہلے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کی اور پھر حکومت کی ممکنہ اے پی سی میں شرکت کا عندیہ بھی دے دیا۔ لیکن جو لوگ عمران خان کو جانتے ہیں وہ اس بات سے واقف ہیں کہ عمران خان کے فیصلے ڈاکٹر کی دوا جیسے ہوتے ہیں صبح، دوپہر شام ہر وقت یوٹرن لینا ان کی پرانی عادت ہے ۔

حکومت پچاس اے پی سیزکرلے اور عمران کو ایسی پچاس اے پی سیز میں مدعو کر لے، عمران خان نے وہی فیصلہ کرنا ہے جو انھیں سوٹ کرتا ہے۔ وہ کبھی دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حامی نہیں رہے۔وہ پرویز مشرف کے ساتھ بھی رہے لیکن جب انھیں پرویز مشرف سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو انھوں نے پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کردی۔ وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر سیاست کرنے کے حامی رہے ہیں۔ 2018سے 2022 تک جب وہ ملک کے وزیر اعظم تھے تو افغانستان سے ٹی ٹی پی کے 5000 سے زائد دہشت گردوں کو انکےخاندانوں سمیت لا کر خیبر پختونخوا کے ان مختلف علاقوں میں بسایا گیا جہاں ان دہشت گردوں نے دیگر علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا اور پھر جس جنگ میں پاکستان جیت کےنزدیک تھا وہ مزید طول پکڑ گئی دیکھتے ہی دیکھتے ایک بار پھر دہشت گردی کراچی سے خیبر تک بڑھ گئی، عمران خان کی جماعت میںایسے لوگ بھی ہیں جنکے ہاں مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پناہ لئےرکھی اور 9مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے رہنمائوں کو پاک افغان بارڈر پر ٹی ٹی پی نے ہی مبینہ پناہ دی ،کیوں کہ ٹی ٹی پی، پی ٹی آئی کو نظریاتی طور پر اپنا حصہ سمجھتی ہے اور 9 مئی کے واقعات کے بعد جب ٹی ٹی پی نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے رہنما فوجی چھائونیوں اور دفاعی نظام پر حملہ آور ہیں تو ٹی ٹی پی قیادت کو مزید یقین ہوگیا کہ تحریک انصاف حقیقت میں ان ہی کےساتھ ہے اس لیے تحریک انصاف کے بیشتر رہنمائوں کو ٹی ٹی پی نے پناہ دی اور آج بھی چند رہنما پاک افغان بارڈر کے دوسری طرف مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے ہی مہمان ہیں۔

آج ملک میں جاری دہشت گردی کے پیچھے اگر ہندوستان کاکوئی ہاتھ ہے تو اس میں تحریک انصاف کا بھی کردار ہے۔ ورنہ انڈیا کے شہریوں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کیلئے فنڈنگ کرتے؟ یہ فنڈنگ اس لیے کی گئی کیوں کہ ہندوستان کو علم تھا کہ ٹی ٹی پی اور عمران خان کے خیالات میں ہم آہنگی کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے نظریاتی ساتھی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایک وقت تھا جب عمران خان مودی سے ملے اور مودی کے وزیر اعظم بننے کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ مودی کے ہندوستان کا وزیر اعظم بننے سے خطے میں بہتری آئے گی۔ عمران خان ماضی میں الطاف حسین کے خیالات سے بھی ہم آہنگی کا اعتراف کر چکے ہیں۔

محسوس یہ ہوتا ہے کہ جیسے مذکورہ بالا تمام عناصر ایک صفحے پر ہیں، تمام کا نشانہ پاکستان کا دفاعی نظام اور فوج ہے، ان تمام لوگوں کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں، ہم بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کے سہولت کار اور پی ٹی آئی کو فنڈ دینے والے ایک ہی ہیں۔ ایسے میں عمران خان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ قومی مفاد میں دہشتگردی کے خلاف کسی آپریشن کی حمایت کریں گے، سمجھ سے بالاتر ہے۔ عمران خان کا مفاد اسی میں ہے کہ ملک میں دہشت گردی پروان چڑھے، جس کے نتیجے میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہو اور ملک انتشار کی طرف چلا جائے۔ ایسے میں عمران خان کو پی ٹی آئی کی کور کمیٹی بھی یہ ہی تجویز دیتی آئی ہے کہ ملک میں انتشار کی سیاست سے ہی بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ممکن ہے تاکہ ووٹرز پی پی پی اور پی ایم ایل این وغیرہ سے تنگ آجائیں اور سڑکوں پر جنگ و جدل کا ماحول بنے اور عمران خان اپنے ملاقاتیوں کو بھی اکثر یہی حکم دیتے ہیں کہ ملک میں انتشار پیدا کرو تاکہ عوام میں مزید بے چینی پیدا ہو اور ایسے میں اگر انتخابات دوبارہ ہوتے ہیں اور ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور بے چینی پیدا کرنے میں پی ٹی آئی کامیاب ہوجاتی ہے تو یقینی طور پر عوام ہمیں بھاری اکثریت سے دوبارہ اقتدار میں لائیں گے ۔یہ سارا منصوبہ ہے جس پر کام چل رہا ہے اور اگر حکومت نے اس منصوبے کو ناکام بنانا ہے تو یقینی طور پر ایک آپریشن کر کے ایسے تمام عناصرکا قلع قمع کرنا ہوگا جو ملک میں مذہبی اور سیاسی دہشتگردی کے خواہاں ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)