زرعی آمدن پر ٹیکس

July 13, 2024

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 6تا8ارب ڈالر قرضے کے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے جو شرائط عائد کر رکھی ہیں ،ان میں سے بیشتر حکومت پاکستان نئے بجٹ میں شامل کرکے پورا کرچکی ہے جبکہ زرعی آمدن اوربعض دیگرپر انکم ٹیکس کا نفاذ ابھی باقی ہے۔آئی ایم ایف نے صوبوں کو اپنے قوانین میں ترمیم کرنے اور زرعی آمدنی پر 45فیصد تک انکم ٹیکس عائد کرنے کو کہہ رکھا ہے۔آئین کے تحت زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ صوبائی حکومتوں کے زمرے میں آتا ہے۔آئی ایم ایف نے غیر تنخواہ دار کاروباری افراد پر اسےنافذ کرنے کا کہہ کر کوئی بھی آئینی رکاوٹ دور کرنے کا حکومت پاکستان کو راستہ دکھایا ہے۔زرعی آمدن پر ٹیکس کا عدم نفاذایک دیرینہ معاملہ چلا آرہا ہےاور ماضی میں کئی بار اسے بجٹ کی تیاری میں اٹھایا گیا ، صنعت وتجارت سے وابستہ ایوانوں اور تنظیموںنے بعض مواقع پر وفاقی بجٹ کو اس لئے مسترد کیا کہ اس میں زرعی شعبہ شامل نہیں تھا۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پائے جانے والے اتفاق رائے، کہ مجوزہ اسٹرکچرل بنچ مارک کے اکتوبر 2024کے آخر تک نفاذ کے سلسلے میں چاروں صوبے زرعی آمدن سے متعلق ٹیکس قوانین میں ترمیم کریں گےتاکہ اسے وفاقی سطح پر لگائے جانے والے کارپوریٹ ٹیکس کے برابر لایا جاسکے۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق صوبوں نے زرعی انکم ٹیکس بڑھانے پر آمادگی ظاہر کردی ہے ،جس کی روشنی میں نئے قرض پروگرام کے پہلے جائزہ مشن میں یہ معاملہ زیر غور آئے گا۔جمعرات کے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت کو تمام شعبوںمیں دبائو کا سامنا ہے ،ہر شخص چاہتا ہے کہ اس پر ٹیکس نہ لگے ۔حکومت رئیل اسٹیٹ اور ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لارہی ہے جبکہ ترمیم شدہ زرعی انکم ٹیکس یکم جنوری 2025سے نافذ ہوجائے گا۔آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ اگر کوئی صوبہ زرعی انکم ٹیکس کی وصولی میںکسی طرح کا چیلنج محسوس کرے تو وہ اپنی جانب سے ایف بی آر کو یہ ٹیکس جمع کرنے کی اجازت دے سکے گا۔ آئی ایم ایف کا منصوبہ ہے کہ قوانین میں ترامیم کے ذریعے چاروں صوبے الائیڈ ٹیکس کا نظام ذاتی آمدنی اور کارپوریٹ آمدنی کے طریق کار سے ہم آہنگ کریں۔اس ضمن میں وضاحت کی گئی ہے کہ لائیو اسٹاک اور دوسرے زرعی شعبے زرعی آمدن میں شمار کئے جائیں گے۔معیشت میں 24فیصد حصہ دار ہونے کے باوجود زراعت کا شعبہ کل ٹیکس وصولی میں 0.1فیصد ادا کرتا ہے۔عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں تخمینہ لگا رکھا ہے کہ پاکستان میں ممکنہ طور پراس سے 1.22کھرب روپے تک ٹیکس جمع ہوسکتا ہے ،جو قومی آمدنی کا ایک فیصد بنتا ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط کی روشنی میں یہ بات واضح اور یقینی ہوگئی ہے کہ اگلے 6ماہ کے عرصے میں زرعی شعبہ محصولات کے دھارے میںمکمل طور پر شامل ہوجائے گا۔ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس بڑھاکر کم آمدنی والے،خصوصاً نجی شعبے سے وابستہ ملازمین کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا ہے،اب ریٹیلرز ،رئیل اسٹیٹ اور زرعی شعبہ ٹیکس نیٹ میں آجانے سے حکومتی ریونیو بڑھے گا ۔ان کے مد مقابل مہنگی ترین بجلی کے بلوں میں عائد کئے گئےایک درجن کے قریب ٹیکسوں سے ہر طبقہ، خصوصاً غریب آدمی بہت پریشان ہے ۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بجلی کے بلوں میں شامل ٹیکسوں کی تفصیلات طلب کی ہیں،ان کے حتی الوسع خاتمے سمیت ایک دیرینہ اور درست تقاضا مراعات یافتہ طبقے کو دی گئی بجلی،پیٹرول اور گیس کی مفت سہولیات ختم کرنا ہے ،کیونکہ غریب اور متوسط لوگوں کو ریلیف ملنا اور معاشی اصلاحات کا عمل یہیں سے شروع ہوتا ہے۔