وزیراعظم کا عزم

July 15, 2024

آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے تین سالہ پیکیج کیلئے عملے کی سطح کے معاہدے میں توقع سے پہلے حاصل ہوجانے والی کامیابی کے فوراً بعد وزیر اعظم نے اپنی صدارت میں ہونے والے وفاقی ادارۂ محصولات کے اجلاس سے خطاب میں یقین دہانی کرائی ہے کہ ایف بی آر کو قومی مفاد کے حوالے سے جو کچھ بھی درکار ہو گا حکومت فراہم کرے گی اور ذاتی پسند نا پسند سے بالاتر ہو کر ہر معاملے میں قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے۔ وزیر اعظم نے مشکل وقت میں ساتھ دینے پر آئی ایم ایف کا شکریہ اداکرنے کے علاوہ وزیر خزانہ اور معاشی ٹیم کے تمام ذمے داروں کو بھی مبارکباد دی۔آئی ایم ایف معاہدے کو بجا طور پر نئی ذمہ داریوں کا آغاز قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں کہ معاشی ترقی کے اہداف حاصل ہو سکیں۔ معیشت کے مائیکرو اشاریوں کو درست کرنا ہو گا جس کیلئے مشکل سفر طے کرنا ضروری ہے۔بلاشبہ آئی ایم ایف سے طویل مدتی پیکیج کے اسٹاف لیول معاہدے میں بظاہر بآسانی حاصل ہوجانے والی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ پاکستانی معیشت میں اصلاحات کا عمل جس رفتار سے جاری ہے وہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے نزدیک اطمینان بخش ہے ۔ تاہم اس عمل کو مستحکم کرکے قومی معیشت کو بیرونی امداد کی بیساکھیوں سے نجات دلانے اور اپنے پیروں پر چلنے کے لائق بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔معاشی خود کفالت کا بنیادی ذریعہ دنیا بھر میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہریوں سے ان کی آمدنی پر یکساں شرح سے وصول کیا جانے والا ٹیکس ہوتا ہے جس کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکسوں کی ضرورت بہت کم ہی رہ جاتی ہے لیکن پاکستان میں اب تک ٹیکس کا منصفانہ نظام اور طریق کار وضع نہ کیے جاسکنے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا ہے جس کے باعث متعدد شعبے ٹیکس سے بالکل آزاد ہیں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بار مسلسل بڑھ رہا ہے جبکہ عشروں سے بیشتر ملکی ضروریات قرض سے پوری کرنی پڑ رہی ہیں ۔ تاہم اب معیشت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے جو اقدامات ناگزیر ہیں ان میں محصولاتی و برآمداتی آمدنی بڑھانے، انکم ٹیکس کا دائرہ تمام شعبہ ہائے زندگی تک وسیع کرنے ،ٹیکس وصولی کے نظام میں انسانی مداخلت کم سے کم کرکے طریق کار کو مکمل طور پر آن لائن یا ڈیجیٹلائز کردینے،اشرافیہ کی شاہانہ مراعات سمیت تمام غیر ضروری اخراجات ختم کرنے ، اورقومی خزانے پر بوجھ بن جانے والے سرکاری تحویل میں چلنے والے تمام ادارے نجی شعبے کے سپرد کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نے جس پختہ عزم کا اظہار کیا ہے وہ یقینا لائق ستائش ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے مگر اصلاحات کے معاملے میں کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے ۔ ایف بی آر افسران کو انہوں نے دوٹوک الفاظ میںبتایا کہ کوئی سفارش قبول نہیں، کوئی ذاتی پسند نا پسند بھی نہیں ہے، قومی مفاد سب سے اوپر ہے، کوئی غلطی ہے تو درست کریں گے۔ آئی ایم ایف سے یہ طویل مدتی معاہدہ یقینا کسی جشن کا جواز فراہم نہیں کرتا۔ پہلے دن سے اس کے ایک ایک لمحے کا درست استعمال ضروری ہوگا۔ اسی صورت میں اس پروگرام کو آخری بنایا جاسکے گا اور ملک پر دوسرے اداروں اور دوست ممالک کے جو واجبات ہیں ان کی ادائیگی کی راہ بھی ہموار ہوسکے گی۔اس سمت میں کامیاب پیش رفت کے لیے ملک کو سیاسی انتشار سے نجات دلانا اور قومی مفاد کی خاطر مفاہمت کی فضا قائم کرنا بھی ناگزیر ہے جس کے لیے تمام سیاسی و ریاستی قوتوں کو ہوشمندی سے کام لینا ہوگا۔ نیز یہ کہ ٹیکس دینے والوں کو جس طرح دوسرے ملکوں میں سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں ، ہمارے ہاں بھی اس کا بھرپور اہتمام ہونا چاہئے ، یہ نہ صرف ٹیکس کلچر کے فروغ کیلئے ضروری ہے بلکہ انصاف کا بھی لازمی تقاضا ہے۔