کیا ارشد شریف کو انصاف مل گیا؟

July 15, 2024

ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے تعطل کی شکار تحقیقات دوبارہ شروع کردیں جس کی ابتدا پاکستان میں درج کئے گئے مقدمہ قتل میں نامزد کئے گئے کینیا میں مقیم تین پاکستانیوں وقار احمد، عامر احمد اور طارق احمد وصی کی حوالگی کے لئے انٹرپول میں درخواست دائر کرکے کی۔منصوبہ سازوں نے قاتلوں کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردئیے اور تفتیش کو اندھیرے راستوں کی جانب دھکیل دیا لیکن ان تمام چیرادستیوں کے باوجود ارشد شریف کے قتل کے کچھ منصوبہ ساز اور قاتل یہیں اردگرد پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ارشد شریف کے قاتلوں اور سہولت کاروں کی نشاندہی اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے بنائی گئی JIT نے ازسرنو تحقیقات کا آغاز ارشد شریف کو پاکستان میں درپیش مسائل کے علاوہ ان وجوہات اور اسباب کا احاطہ کرنے سے کیا اور یہ حقیقت جاننا اور اس کے پیچھے کارفرما مشکوک کرداروں کے سیاسی اور غیرسیاسی عوامل اور عزائم کا تجزیہ کرنا بھی مقصود ہے جس کی بنیاد پر ارشد شریف اپنی زندگی جان بچانے کے لئےکسی جانے انجانے خوف میں مبتلا ہو کر منظر سے اچانک غائب ہوگیا اور اگلے روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ہاؤس پشاور میں وزیراعلیٰ کے’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں پایا گیا۔یہ وہ پہلا سوال تھا جس کا تحقیقاتی اداروں کو مدلل اور غیر سیاسی جواب نہیں ملا جس کی بنیاد پر یہ ایک سوال نے کئی سوالوں کو جنم دیا اور قتل کے اس مربوط منصوبے کے پیچھے متحرک کردار اپنے’’مشن‘‘ کی تکمیل کے لئے آگے بڑھتے رہے۔دوسری جانب ارشد شریف کو یہ کہہ کر کہ وہ پاکستان میں محفوظ نہیں، خوفزدہ کرکے اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کی مہم جاری رہی انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں پناہ دے دی جس کے بعد وہاں سرکاری طور پر ’’پراسرار سرگرمیوں‘‘ میں اضافہ ہوتاگیا،قتل کے منصوبہ سازوں نے ارشد شریف کے گرد خوف کا دائرہ اس قدر تنگ کردیاکہ اپنی جان بچانے کے لئے ارشد شریف کے پاس کسی بھی حال میں ملک سے نکل جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دیا اور اسی کیفیت میں وہ اسی ٹریپ میں پھنس گیا جس پھندے میں وہ اسے پھنسانا چاہتے تھے۔ایک رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو خوفزدہ کرنے کے لئے حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے ایک جعلی’’تھرٹ الرٹ‘‘ جاری کیا گیا جس میں خبردار کیا گیا کہ ارشد شریف کو رات کے کسی پہر اغوا یا قتل کردیا جائے گا لیکن اس الرٹ پر کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا حوالہ موجود نہیں تھا۔اس کے ساتھ ہی ارشد شریف کو جلدازجلد ملک سے نکالنے کی تدابیر تیار کرتے ہوئے دبئی بھجوانے کا بندوبست کیا گیا جو منصوبے کے مطابق ان کا پہلا پڑاؤ تھا۔رپورٹ کے مطابق اسی رات ارشد شریف کو وزیراعلیٰ کی اسٹاف کار میں انتہائی رازداری کے ساتھ پشاور ائرپورٹ لایا گیا اور انہیں دبئی روانہ کردیا گیا لیکن منصوبہ سازوں نے ارشد شریف کا تعاقب جاری رکھا اور تین چار دن دبئی میں رکھنے کے بعد انہیں ان کی قتل گاہ کینیا بھجوا دیا۔اس دوران معلوم ہوا کہ ارشد شریف کا ذاتی لیب ٹاپ مراد سعید کی تحویل میں دے دیا گیا جس میں وہ راز موجود تھے جو فریقین کے درمیان وجہ عناد بنے۔کیا اس تاثر کی توثیق یا تردید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ ارشد شریف کا ذاتی لیب ٹاپ مراد سعید کی تحویل میں تھا جس کی وجہ سے مراد سعید اب تک منظر سے روپوش ہیں اور اس روپوشی کے دوران کئی بار افغانستان گئے جہاں بعض اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ارشد شریف کی باڈی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قتل سے پہلے ارشد شریف پر انتہائی تشدد کا انکشاف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ارشد شریف کے ہاتھوں کی انگلیوں کے علاوہ پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اب سوال یہ ہے کیا تشدد وقاراور عامر کے فارم ہاؤس(فائرنگ رینج( پر ان دونوں کی موجودگی میں ہوا۔پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے شبہ ظاہر کیاہے کہ فارم ہاؤس میں تشدد کے بعد قتل کے منصوبے کے ڈراپ سین کے لئے ارشد شریف کو نیم مردہ حالت میں عامر کی گاڑی میں سوار کیا گیا کیونکہ وہ ڈنر کے لئے عامر کی گاڑی میں ہی فارم ہاؤس آئے تھے۔گاڑی جیسے ہی فارم ہاؤس سے نکلی اور مین روڈ تک آنے کے لئے کچے راستے سے پکی سڑک پر آئی تو رات کے گھپ اندھیرے میں قائم کی گئی پولیس چوکی پر معمور مسلح پولیس والوں نے ارشد شریف کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن عامر نے گاڑی بھگا دی نتیجتاً پولیس نے تعاقب کیا اور عقب سے گاڑی پر فائرنگ شروع کردی، تمام گولیاں ارشد شریف پرہی برسائی گئیں، کوئی ایک گولی بھی ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے نہیں لگی کیونکہ ارشدشریف کو نشانہ بنانا مقصود تھا، عامر کو نہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انتہائی اہم اور قابل غور انکشاف یہ ہے کہ ارشد شریف کی موت قریب سے چلائی گئی گولی سے واقع ہوئی اور عامر سے زیادہ قریب اس وقت کون تھا؟