دالیں بھی مہنگی

July 16, 2024

دال دلیہ کو محاورتاً غریبوں کی غذا سمجھا جاتا ہے لیکن پچھلے مہینوں میں مہنگائی میں کمی کے جس رجحان کے باعث عوامی سطح پرکچھ اطمینان کی کیفیت دیکھی جارہی تھی، نئے مالی سال کے بجٹ کے بعد اس کا قطعی خاتمہ ہوگیا ہے حتیٰ کہ مونگ مسور ماش اور چنے کی دالوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کیا جاچکا ہے اور آنے والے دنوں میں دالوں کے نرخ مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اپریل میں مہنگائی کی شرح میں کمی کے بعد اسٹیٹ بینک نے شرح سود ڈیڑھ فیصد کم کرتے ہوئے 20.5 فیصد کردی تاہم بجٹ 2024-25ءمیں ٹیکس کے سخت اقدامات، عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے اور طلب و رسد کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کے باعث اشیائے خوردونوش، خاص طور پر دالوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ایک ایکسپورٹرکے بقول حکومت نے دالوں کی درآمد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 1.25 فیصد سے بڑھا کر 1.85 فیصد کردی ، پھرفائلرز اور نان فائلرز پر اضافی ٹیکس لگا دیا جس کی وجہ سے دالوں کی مارکیٹ میں حالیہ اضافے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حوالے سے بھی پریشانی پائی جاتی ہے۔کراچی ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مطابق بجٹ کے بعد مختلف دالوں کی ہول سیل قیمتوں میں 94روپے فی کلو تک کا اضافہ ہوا ہے۔چنے اور اسکی دال کی قیمت میں عالمی منڈیوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بھارت میں فصل خراب ہونے کے باعث چنے کی بڑے پیمانے پر خریداری ہے تاہم دیگر دالوں کے نرخوں میں عالمی سطح پر پچھلے مہینے کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی اس لیے ان کی مہنگائی کا سبب مقامی اسباب ہی کو قرار دیا جارہا ہے جن میں بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکس سرفہرست ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دالوں کی قیمتیں کم کرنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کی جائے ۔ خصوصاً اشرافیہ کی مراعات اور غیرضروری سرکاری اخراجات ختم کرکے عوام کی مشکلات کم کی جائیں۔