قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی

July 15, 2024

(گزشتہ سے پیوستہ)

برصغیر میں برطانوی راج کے آخری تیس برس ایک تلاطم خیز سیاسی عہد کی کہانی ہے۔ اس دوران بڑے طوفان اٹھے، ان گنت لہریں بنتی اور بگڑتی رہیں۔ آل انڈیا کانگرس نے جنوری 1930 ء میں اپنے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں مکمل آزادی کا مطالبہ کیا تو مسلم لیگ ایک داخلی بحران سے دوچار تھی۔ مارچ 1927ء میں قائداعظم کی ’تجاویز دہلی‘ منظور نہیں ہوسکیں۔ مسلم لیگ پنجاب سر محمد شفیع کی قیادت میں الگ ہوگئی اور علامہ اقبال اس دھڑے کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ تجاویز دہلی میں کل چار نکات تھے۔ قائداعظم اور انکے ہم نوا چار مطالبات کی بنیاد پر جداگانہ انتخابات سے دست بردار ہونے پر تیار تھے۔ یہ چار تجاویز سندھ کی صوبہ جاتی شناخت ، سرحد اور بلوچستان میں دیگر صوبوں کے مساوی اصلاحات، پنجاب اور بنگال میں آبادی کے تناسب سے مسلم نشستوں نیز مرکزی مقننہ میں مسلمانوں کی ایک تہائی نشستوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان چاروں مطالبات میں کسی مذہبی مطالبے کا پر تو نہیں تھا۔ یہ خالص سیاسی اور دستوری تجاویز تھیں۔ جناح لیگ توقعات پر پوری نہیں اتر سکی تو قائداعظم مارچ 1929 ء میں میاں شفیع کو مسلم لیگ کی صدارت سونپ کر اگلے پانچ برس کیلئے برطانیہ منتقل ہو گئے۔ ترکی میں مارچ 1924 ء میں مصطفی کمال نے خلافت ختم کر دی تھی لیکن ہندوستان میں خلافت تحریک کی بازگشت اسکے بعد بھی سنائی دیتی رہی۔ اسکا حوالہ منیر انکوائر ی کمیشن رپورٹ میں ماسٹر تاج الدین انصاری سے سوال جواب میںملاحظہ کیجئے۔ اس دوران کہیں مجلس احرار تھی تو کہیں کشمیر کمیٹی، کہیں نیلی پوش تحریک تھی تو کہیں چوہدری رحمت علی کا کتابچہ، کہیں مسجد شہید گنج کا تنازع تھا تو کہیں منزل گاہ مسجد سکھر کے فسادات۔ علامہ اقبال نے 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد پیش کیا۔ اس خطبے کے متن میں چھ مقامات پر جمہوریت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور ہر چھ مواقع پر اقبال نے جمہوری نظام پر تنقید کی ہے۔ تضاد ملاحظہ فرمائیے کہ سید امیر علیThe Spirit of Islam لکھتے ہیں تو اسلام میں جمہوری روح دریافت کرتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کہیں جمہوریت کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ کہا کہ ’ہم نے جمہوریت کے اصول ساڑھے تیرہ سو برس پہلے سیکھ لیے تھے‘۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے اقبال جمہوری بندوبست کے مخالف تھے۔

یہی وہ زمانہ ہے جب مسلم ہندوستان کے منظر پر 1903ء میں پیدا ہونیوالے اورنگ آباد کے سید ابوالاعلیٰ مودودی نمودار ہوئے۔ انکے والد پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے تاہم یہ پیشہ ترک کر چکے تھے۔ سید مودودی نے براق ذہن پایا تھا ۔ کسی دینی مدرسے سے سند حاصل نہیں کی ۔1920 ء میں جمعیت علمائے ہند کے ترجمان ’الجمعیۃ‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1925 ء میں جمعیت علمائے ہند اور کانگرس میں اشتراک ہوا تو بطور احتجا ج الجمعیۃ کی ادارت چھوڑ دی۔ 1927ء میں ’ الجہاد فی الاسلام‘تصنیف کی۔ یہ وہی برس ہے جب علامہ شبیر احمد عثمانی نے ’الشہاب‘ کے عنوان سے مسئلہ ارتداد پر کتابچہ شائع کیا تھا۔ اس دوران سید مودودی حیدرآباد دکن تشریف لے گئے جہاں انکے برادر بزرگ ابوالخیر مودودی دارالترجمہ سے وابستہ تھے۔ 1932ء میں حیدر آباد ہی سے سید مودودی نے رسالہ ’ترجمان القرآن ‘ کی اشاعت شروع کی۔ 1935ء میں ’پردہ ‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کے مندرجات خاصے پاپیادہ ہیں۔ رفتہ رفتہ ترجمان القرآن میں سیاسی موضوعات بھی زیر بحث آنے لگے۔ ہندوستانی سیاست میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے کردار کا ابتدائی ترین حوالہ دارالعلوم ندوۃ العلما کے لکھنؤ کے مدرس مولانا اسحاق سندیلوی کی کتاب ’اسلام کا سیاسی نظام‘ میں مولانا عبدالماجد دریابادی کے جنوری 1956 ء میں لکھے گئے پیش لفظ میں ملتا ہے۔ واضح رہے کہ اسی کتاب میں مشمولہ مولانا معین الدین ندوی کے مقدمہ کا پہلا جملہ ہی بیان کرتا ہے ’اسلام کا مقصد اگرچہ دنیا میں حکومت و سلطنت کا قیام نہیں ہے لیکن وہ حسن عمل کا لازمی نتیجہ ہے‘۔اس جملے کی معنویت پر آپ کو دعوت فکر ہے۔ ہمیں تو ماجد دریابادی صاحب کے پیش لفظ سے ایک اقتباس پیش کرنا ہے۔ ’سن غالباً 1940 ء تھا یا شاید اس سے بھی کچھ قبل جب مسلم لیگ کا طوطی ہندوستان میں بول رہا تھا کہ ارباب لیگ کو خیال پیدا ہوا کہ جس اسلامی حکومت (پاکستان) کے قیام کا مطالبہ شدومد سے کیا جا رہا ہے خود اسکا قانون اساسی بھی تو خالص اسلامی بنانا چاہئے اور اسی غرض سے یو پی کی صوبہ مسلم لیگ نے ایک چھوٹی سی مجلس مقرر کر دی جو اسکے خیال میں شریعت کے ماہرین تھے کہ یہ مجلس ایسا نظام نامہ مرتب کر کے لیگ کے سامنے پیش کرے، اس مجلس نظام اسلامی کے چار ممبران کے نام تو اچھی طرح یاد ہیں۔ 1 ۔ مولانا سلیمان ندوی، 2 ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ، 3 ۔ مولانا آزاد سبحانی، 4 ۔ عبدالماجد دریابادی۔ باقی دو ارکان کے نام اب ذہن میں نہیں۔ ‘ مجلس کے مصارف کے کفیل نواب صاحب چھتاری قرار پائے اور انہوں نے غالباً 500 روپے کی رقم اسی وقت مجلس کو عطا بھی کر دی۔ مجلس کا تمہیدی اجلاس دارالعلوم ندوہ (لکھنؤ) میں ہوا۔ علامہ ندوی مجلس کے داعی قرار پائے، موصوف نے تجویز دی کہ کتاب کا ابتدائی مسودہ مولانا حکیم محمد اسحاق سندیلوی تیار کریں جس کی نقل ہر رکن کے پاس جائے۔ یہ ارکان ایک بار پھر جمع ہو کر مسودہ کی آخری شکل طے کر دیں‘۔ پھر یوں ہوا کہ یہ مسودہ ماجد دریابادی صاحب کے مطابق کہیں گم ہو گیا اور پچاس کی دہائی میں دریافت ہوا۔ یہ ’مجلس نظام اسلامی‘ کا مالہ و ماعلیہ تھا۔ نواب احمد سعید خان چھتاری وہی شخصیت ہیں جنہوںنے 17 اکتوبر 1936ء کو لال باغ (لکھنؤ) میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے عام اجلاس میں صدر مجلس محمد علی جناح سے متعدد امور پر سخت اختلاف کیا تھا۔ خود عبدالماجد صاحب کو مجلس کے قیام کا برس یاد ہے اور نہ اس کے تمام ارکان کا نام۔ مسلم لیگ کی دستاویزات میں ایسی کسی مجلس کا کوئی ذکر نہیں۔ اس مجلس کا تیار کردہ مسودہ ایسا وقیع تھا کہ ’گم ہو گیا‘۔ اس دوران ترجمان القرآن نیز ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ میں سید ابوالاعلیٰ مودودی مطالبہ پاکستان پر کیا فرماتے رہے، اس کا ذکر آئندہ نشست میں۔