قتلِ حسینؓ، مرگ ِیزید

July 17, 2024

میدان کربلا میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کی جانب سے دس محرم سن 61ہجری کو دی گئی جانی قربانی بلاشبہ 14صدیوں میں امت محمدیؐ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا واقعہ ہے ۔ بعض لوگ اسے محض ایک ایسے حکمراں کے خلاف مزاحمتی جدوجہد تصور کرتے ہیں جو اخلاق و کردار کے مطلوبہ اسلامی معیار ات پر پورا نہیں اترتا تھا۔تاہم فرمان نبویؐ کے مطابق جوانانِ جنت کے سردار کا لقب پانے والی ہستی نے جس بنیادی وجہ سے حکمران وقت کی بیعت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی خاطر اپنی ہی نہیں اپنے سارے پیاروں کی جانیںقربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، وہ دراصل احکام الٰہی کے تحت نبی کریم ؐکے قائم کردہ سیاسی و ریاستی نظام میں رونما ہونے والا ایک ایسا بگاڑ تھا جس نے خلافت الٰہیہ کے اسلامی نظام کو شخصی بادشاہت میں تبدیل کرنے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ زمین پر انسان کو اللہ کی جانب سے اپنا نائب مقرر کیے جانے کے نظریے پر قائم ریاست اس حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ رب العالمین کا حق ہے اور اسلامی ریاست کے تمام شہری ربانی ہدایات کے تحت ملک کا نظام چلانے کے ذمے دار ہیں ۔ تاہم وہ اپنی یہ ذمے داری اپنے نمائندے کی حیثیت سے اسلامی معیارات کے مطابق بہترین فرد کا انتخاب کرکے پوری کرتے ہیںجو نظام ریاست کو سیرت و کردارکے لحاظ سے معاشرے کے بہترین افراد کی مشاورت سے چلانے کا پابند ہوتا ہے۔اس نظام کا کامل نمونہ ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مجموعی طور پر اپنے تیس سالہ دور خلافت میں پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے پیش کردیا تھا۔ اس نظام میں امور مملکت چلانے کا ذمے دارفرد خود کو لوگوں کا حاکم نہیں خادم تصور کرتا اور یہ جانتا تھا کہ اسے اپنے دور حکومت کے ایک ایک پل کی جواب دہی اپنے رب کی حضور کرنا ہوگی۔اس طرز حکومت میں ریاست کے وسائل اور قومی خزانہ بادشاہوں کی طرح خلیفہ کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ باشندگان ریاست کی امانت ہوتا تھا۔ خلافت کا منصب وراثت میں منتقل نہیں کیا جاسکتا تھا بلکہ اس کیلئے عامۃ الناس کو اپنے میں سے بہترین فرد کا انتخاب کرنے کا حق حاصل تھا۔ چاروں خلفائے راشدین اسی طرح بیعت عام کے ذریعے منصب خلافت پر فائز ہوئے لیکن چوتھے خلیفہ راشد علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ کا نظام باقی نہیں رہ سکا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی میں بعض تبدیلیوں کی وجہ سے خلافت راشدہ میں شمار نہیں کیا جاتالیکن ان کی حکومت کو بہرکیف قبول عام حاصل ہوگیا تھا۔ تاہم جب انہوں نے اپنے بیٹے کو بادشاہوں کے طریقے کے مطابق ولی عہد نامزد کردیا اور اس کیلئے جبری بیعت لینے کا سلسلہ شروع کیا توحسین ابن علی ؓ کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا کہ اگر اس کے خلاف مزاحمت نہ کی گئی تو اسلامی نظام خلافت کا تصور ہی مٹ جائیگا اور ملوکیت ہی کو اسلام کاسیاسی نظام سمجھا جانے لگے گا ۔لہٰذا فراست مومن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے اس تبدیلی کے درآنے کی راہ روکنے کی خاطر اپنی اور اپنے پیاروں کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اسکے بعد اسلامی تاریخ میں وراثت اور نامزدگی کے ذریعے سے منصب حکمرانی پر فائز ہونے والے کسی حکمراں کو خلیفہ راشد تسلیم نہیں کیا گیا اور اسلام کا سیاسی نظام ملوکیت کی پیوندکاری سے محفوظ رہا۔یہ ہے وہ اصل کارنامہ حسین ابن علی رضی اللہ عنہما نے جسے انجام دے کر اسلامی تاریخ میں لازوال مقام حاصل کرلیا اور ملوکیت کو اسلام بنانے کی کوشش ہمیشہ کے لیے ناکام ہوگئی ، اس حقیقت کو جوہر نے بڑی خوبصورتی سے ان دو لازوال مصرعوں میں سمودیا ہے کہ ’’قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے، اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔