بڑھتی آبادی اور موسمیاتی تبدیلیاں

July 17, 2024

پاکستان کی آبادی میں تیز رفتار اضافہ ایک طرف وسائل میں کمی کے مسئلے کو مزید گھمبیر بنا رہا ہے اور دوسری طرف اس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج شدید تر ہوتا چلاجا رہا ہے۔ اگرچہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے یا کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آبادی کے اعتبار سے بھی پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ تاہم فی کس آمدنی کے لحاظ سے ہم 161ویں اور جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے 138 ویں نمبر پر ہیں۔ اسی طرح ہماری شرح افزائش اور ترقی کی شرح تقریبا ًدو فیصد ہے یعنی آبادی میں اضافے کے اعتبار سے ہماری ترقی کی شرح صفر ہے۔

ان اعدادو شمار سے پاکستان کو درپیش آبادی میں اضافے کے مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف آبادی اور وسائل کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج اسے مزید خطرناک بنا رہا ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث پسماندہ طبقات کے قدرتی آفات سے متاثر ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ ان کی بحالی کیلئے بھی حکومت کو زیادہ وسائل مختص کرنا پڑتے ہیں جس سے قومی وسائل کے غیر پیداواری استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ عالمی موسمیاتی ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان میں 1980ءسے 2021ءکے درمیان اوسط درجہ حرارت میں 0.9 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے دنیا کا 27واں سب سے کم تیار ملک قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 1998ءسے 2018 ء تک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تقریباً دس ہزارسے زائد اموات ہوئی ہیں جس سے قومی معیشت کو چار ارب ڈالر کے مساوی معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح 2022ءکے سیلاب کے باعث پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے لئے کام کرنے والے عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق آبادی میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں اسی سے نوے لاکھ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا اندیشہ ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ اوسط سالانہ شرح نمو کے ساتھ پاکستان کو 104 ملین ملازمتیں اور 15.5 ملین گھروں کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی بارشوں کے انداز میں خلل ڈال رہی ہے، گلیشیرز پگھل رہے ہیں، سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، خشک سالی اور سمندری طوفان آنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں جس سے معاشی تنزلی کے خطرات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین ماحولیات نے پیشن گوئی کی ہے کہ گرمی اور سردی کے موسم میں شدت کا رجحان 2027 ءتک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان پانچ سال کے مختصر عرصے میں گندم برآمد کرنے کی بجائے گندم درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اسی طرح آبادی میں اضافہ وسائل کی تقسیم پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ پاپولیشن کونسل پاکستان کے مطابق موجودہ آبادی کے حجم اور شرح نمو کیساتھ ملک میں 2040ء تک کم از کم 57000 مزید پرائمری اسکولوں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے پہلے ہی تعلیم سے محروم ہیں جس کی وجہ سے یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں ابتدائی تعلیم تک سو فیصد بچوں کی رسائی ممکن بنانے کا ہدف حاصل کرنے کیلئے مزید پچاس سال لگ سکتے ہیں۔

آبادی میں اضافے کی وجہ سے جہاں غذائی قلت کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ہر اضافی شخص کاربن کے اخراج میں اضافہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے گلوبل وارمنگ کے باعث پاکستان زیادہ متاثرہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے فصل کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے زرعی سائنسدان طویل عرصے سے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ گندم کی پیداوار پر دباؤ کم کرنے کیلئے روایتی اناج یعنی جوار، جو اور مکئی کے استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں آبادی میں اضافہ جنگلات یا زرعی رقبوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ ثابت ہو رہا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ دو عشروں کے دوران درختوں کی تعداد میں ایک فیصد کی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس طرح بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات پورا کرنے کے لیے 2017 سے 2020 کے درمیان پاکستان کی قابل کاشت اراضی میں تین فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ شہری آبادی میں بے تحاشہ اضافہ بھی درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ مثال کے طور پر ایئرکنڈیشنر کا استعمال خشک گرمی پیدا کرنے کے بنیادی ذرائع میں سے ایک ہے جس میں گزشتہ پندرہ سال کے دوران شہری علاقوں میں پانچ فیصد اور دیہی علاقوں میں تین فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں موسمیاتی تبدیلی کی گفتگو بنیادی طور پر کاربن کے اخراج میں کمی کی حکمت عملی پر مرکوز ہے جبکہ آبادی میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں تعلق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ پاکستان کو درپیش موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آبادی میں اضافے کی بے ہنگم شرح میں کمی کو اس کا بنیادی نکتہ بنایا جائے۔ اس طرح نہ صرف آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ آنے والی نسلوں کی بقا اور خوشحالی کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔