مصائب ………

July 17, 2024

گردن کٹی نماز کے دوران آہ آہ

سجدے میں ہوگیا کوئی قربان آہ آہ

رہتا ہے تازہ سانحۂ کربلا کا غم

آتا نہیں قرار کسی آن آہ آہ

پانی نہ دے سکے وہ سکینہ کو پیاس میں

عباس ہوں گے کتنے پشیمان آہ آہ

زینب کے بیٹے ماں سے اجازت پہ ہیں بضد

گو واپسی کا قصد نہ امکان آہ آہ

انسان، اور بے حِس و بے رحم اِس قدر؟

بخشی نہ شیر خوار کی بھی جان آہ آہ

ہیں ظالموں کی زد پہ رفیقوں کے ساتھ امام

خیموں میں بی بیاں ہیں پریشان آہ آہ

تنہائی میں نہ پُوچھئے صغریٰ کی بے دلی

گھر کیا، تمام شہر ہے سنسان آہ آہ

کیوں ذکرِ کربلا پہ نہ بھر آئے دل شعورؔ

وہ دشت آہ آہ، وہ میدان آہ آہ