یا حسینؓ

July 17, 2024

آج نویں محرم ہے، صبحِ کربلا ہے، بقول اقتدار جاویدـ:

دعا تھی اور سارے میں کوئی آہ و بکا تھی

محرم کی نویں تھی اور صبحِ کربلا تھی

سو محرم کا پہلا عشرہ عالم اسلام میں دکھ کی ایک لہر کی طرح نمودار ہوتا ہے، تمام عالم اسلام میں اپنے غم کا اظہارمختلف انداز میں کیا جاتا ہے، کہیں بینڈ باجا بھی ہوتا ہے، کہیں ایک باقاعدہ ڈرامے کی صورت دی جاتی ہے کہ ایک شخص آتا ہے اور وہ امام حسینؓ کی شہادت کی خبر دیتا ہے اور اس کے بعد آہ و بکا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس دردناک واقعہ پر مغرب میں فلمیں بھی بنی ہیں تاہم پاک و ہند میںاس کا سوگ جداگانہ طریقے سے کیا جاتا ہے، یہاں تعزیہ نکالا جاتا ہے، ذوالجناح برآمد ہوتا ہے جس پر اس کا شہسوار نہیں ہے اور پھر آہ و بکا سنائی دیتی ہے، لوگ اس کی زیارت کیلئےبے تاب ہوتے ہیں اسے چھونے کی کوشش کرتے ہیں، کئی لوگ اپنے بچوں کو اس کے نیچے سے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، ذوالجناح کی آرائش دیدنی ہوتی ہے۔روزانہ صبح و شام مجالس بپا ہوتی ہیں۔ علماء اسلام کی حقانیت کے حوالے سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور بعد میں چند منٹ مصائب بیان کئے جاتے ہیں۔ ان علماء کی بہت خدمت کی جاتی ہے۔ نوحہ خوانی اس کے علاو ہ ہے۔ اس کیلئے بعض پیشہ ور لوگ بھی ہوتے ہیں، انہیں تھوڑا تھوڑا وقت دیا جاتا ہے مگر بعض اوقات وہ اس سے تجاوز کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ محرم کے پہلے دس دنوں میں لہو و لعب سے کنار ہ کشی کی جاتی ہے اور خصوصاً دس محرم کا دن قیامت سے کم نہیں ہوتا، شہادت امامؓ کے وقت تک کھانے پینے سے گریز کیا جاتا ہے اور عصر کے بعد روٹین کی زندگی شروع ہو تی ہے اور کھانا پینا آغاز کیا جاتا ہے۔نو اور دس محرم کو نیاز بھی دی جاتی ہے اور نیاز دینے والوں میں سنی اور شیعہ دونوں شامل ہوتے ہیں۔

اوپر سطور میں، میں نے جو احوال بیان کیا ہے وہ اہل تشیع کے حوالےسے ہے۔ اہل سنت امام حقؓ کا سوگ اپنے طریقے سے مناتے ہیں وہ راستوں میں پانی کی سبیلیں لگاتے ہیں ، زیادہ وقت قرآن مجید کی تلاوت میں صرف کرتے ہیں، دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں، نیاز دیتے ہیں مجلس اگر سننا ہو تو ٹی وی پر سنتے ہیں۔ ماتم نہیں کرتے ، ان کے ہاں ذوالجناح اور تعزیہ بھی نہیں ہے۔ شیعہ اور سنی محرم الحرام میں شادی بیاہ کی تقریب منعقد نہیں کرتے۔ میدان کربلا میں بدبخت کوفیوں نے خانوادۂ رسول اکرم ؐ کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا سنگدل سے سنگدل شخص جو کسی بھی فرقے، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، خواہ ملحد ہی ہو، اگر اس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ آبدیدہ نہ ہو، بدبخت کوفیوں نے امامؓ کو خود دعوت دی تھی کہ وہ تشریف لائیں اور یزید لعین سے ان کی جان چھڑائیں، مگر جب امام اپنے لشکر نہیں، صرف اپنے خانوادے کے ساتھ وہاں پہنچے تو انہوں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور پھر میدان کربلا نے وہ خونی مناظر دیکھے جو اس سے پہلے کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آئے ہوں گے۔

سانحہ کربلا نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا، مگر شاعری میں غم و اندوہ کی زندہ تصاویر چھوڑ گیا۔ میر انیس اور دبیر کے مرثیے صرف غمِ حسینؓ کے ذکر سے زندہ نہیں ہیں بلکہ شاعری کی معراج بھی ہیں ان کے بعد بھی شاعروں نے واقعہ کربلا کو اپنا موضوع بنایا اور یوں ادب میں مرثیے نے ایک علیحدہ صنف کی شکل اختیار کرلی، اس وقت مجھے آغا شورش کا ایک مرثیہ یاد آ رہا ہے جو انہوں نے 1963ء میں لکھا ، وہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔

’’محرم الحرام ‘‘

آغاز محرم ہے کہ ہنگام وغاہے

اسلام خود اپنوں کی شقاوت میں گھراہے

نالہ نہیں یہ گنبد خضرا کی ہے فریاد

ماتم نہیں سی پارہء قرآں کی صداہے

اعدائے بداندیش کسے گھور رہے ہیں

حیدر کا پھریرا ہے کہ زینبؓ کی رداہے

عباس کا حلقوم ہے نیزے کی اَنی پر

قاسم کا لہو خاک کے ذروں کو رواہے

صغری کا جگر چاک ہے بےنیزہ و خنجر

خنجر ہے کہ شبیر کے سینے میں گڑاہے

شامی ہیںکہ رکتے ہی نہیں جوروستم سے

کوفی ہیںکہ ہر شخص کی فطرت میں دغا ہے

سادات کے چہرے پہ طمانچوں کے نشاںہیں

حالات کے نرغے میں سکینہ کی حیاہے

موقوف ہے جس ذات پہ امت کی شفاعت

خنجر کے تلے اس کے نواسے کا گلاہے

اس دور میں کیا بیت گئی پور علی پر

تاریخ کو اس باب میں قدرت سے گلاہے

خیموں کی طنابوں پہ رزیلوں کے بڑے ہاتھ

خاکم بدہن! یہ بھی مشیت کی رضاہے

زندہ ہیں ہر اک دور میں حسنی و حسینی

زہرا کی قسم! ان کے گھرانے کو بقاہے

ہم لوگ فدائی ہیں حسینؓ ابن علیؓ کے

اولاد ستم معرکہء آرا ہے تو کیاہے

ہر دور میں سر کٹتے رہے اہل وفا کے

ہر دور میں اک معرکہء کرب و بلاہے

ہر دور میں ہوتی رہی طاقت کی پرستش

ہر دور یزیدوں کا طرف دار رہاہے

جبریل امیں دیکھ! کہ اولاد نبیؐ سے

کیا صاحب معراج کی امت نے کیا ہے

لخت دل زہرا کی ستائش کے صلے میں

شورش سے گنہگار کی عقبیٰ میں جزا ہے