ملٹی کلچرل سوسائٹی کے تقاضوں کو سمجھیں۔۔!

August 07, 2024

خیال تازہ … شہزاد علی
سفید فام اور غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ مقامی اور قومی اداروں اور قانونی اور رضاکارانہ اداروں کے ساتھ اچھے کام کرنے والے تعلقات استوار کرنا برطانیہ کے مسلمانوں کے عین مفاد میں ہے برطانیہ اس وقت ایک ہیجان کی سی کیفیت میں ہے۔ مسلمانوں کو نسل پرست عناصر خوف زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ یہ سب ایسے دور میں ہورہا ہے جب برطانیہ پر لیبر پارٹی کی حکومت ہے ۔لیبر کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کار طویل عرصے سے خوشگوار طور پر قائم رہے ہیںتاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ غزہ کے مسئلے پر پارٹی لیڈر اور موجودہ وزیراعظم سر کیئر سٹارمر کے اسرائیل نواز موقف سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ حقوق انسانی کی پاسداری پر یقین رکھنے والے دیگر لوگوں کو بھی حیرت ہوئی جس پر ان کی قابل ذکر تعداد میں لیبر مخالف رحجان ابھرا جس کے چند مظاہرے ہم نے حالیہ الیکشن کے دوران ملاحظہ کیے۔ دوسری جانب کنزرویٹو سے انتہائی دائیں بازو کے لوگ نائجل فاریج کے اردگرد جمع ہوتے گئے دو بڑی جماعتوں کی اس تقسیم سے بھی سفید فام نسل پرست عناصر کے مقاصد کو تقویت ملی ہے۔ نسل پرست عناصر کو کہاں سے نسل پرستی کا ایمونیش ملتا ہے؟ اس کا گہرائی سے جائزوں کی ضرورت ہے ؟ تاہم ایک واقعہ جس میں کوئی پناہ گزین یا مسلمان سرے سے ملوث ہی نہیں تھا کو بنیاد بنا کر پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت پر مبنی فضا تخلیق کر دی گئی جس سے یہ بھی احساس ابھرتا ہے کہ یہ فضا فوری طور پر تیار نہیں ہوئی بلکہ اندرون خانہ اس کے لیے غالباطویل عرصے سے منصوبہ بندی کی گئی پھر ہم یہ بھی دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ جہاں یہ درست ہے کہ مسلمان بہت سے شعبوں میں آگے بڑھ رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم میں سے بعض مسلمان ایسے رویےا مظاہرہ بھی کرتے ہیں جس سے ہم سب الگ تھلگ کوئی مخلوق معلوم ہوتے ہیں پھر ہم نے اپنے بعض ایسے رویےختہ کیے ہوئے ہیں کہ جن کے اثرات دیرپا منفی ہیں۔ کشمیر اورفلسطین جیسے مسئلوں پر احتجاجی مارچ/ جلوس تو پھر بھی سمجھ میں آتے ہیں مگر مذہبی پروگرام برطانیہ کی سڑکوں پر ترتیب دیتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس سوسائٹی میں ہماری تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ کیا ہم اپنی بعض سرگرمیوں سے جن سے راستے بلاک ہوتے ہیں سروسز میں خلل پیدا ہوتا ہے سے اپنا عمومی منفی امیج نہیں پیدا کر رہے؟ ہم اپنی بعض سرگرمیوں اور روایات کو کیا برطانیہ کے معاشرے کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں کرسکتے؟ مختلف اہم ایام پر ہم بجائے جلوس نکالنے کے کہ اس دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے سیمینارز اورجلسہ کا اہتمام بھی کر سکتے ہیں؟ جن میں بلکہ مختلف مذاہب اور کمیونٹیز سے متعلق شخصیات کو مدعو کر کے بہتر طریقے سے اپنا پیغام بھی پہنچا سکتے ہیں اور اپنے متعلق اچھا امیج قائم کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر جب پروگرام میں طعام کا بھی اہتمام ہو تو ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے اس حوالے ہمارے مذہبی، سیاسی اور کمیونٹی رہنما کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نوجوان نسل کی مناسب رہنمائی اور اچھے شہری کے کردار یعنی حقوق کے ساتھ ذمہ داری کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے جس ملک میں اب ہماری چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے اس کو اپنا ملک سمجھنے اور اس تناظر میں رویوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ برطانوی حکومتوں نے تو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے نفرت انگیز جرائم کے خلاف قانون سازی اور نفرت پر مبنی جرائم کی روک تھام اور مقدمہ چلانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور منفی خرافات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں عوامی بیداری کی مہمات چلائی ہیں تاہم خود مسلم کمیونٹی کو انٹی گریشن پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنا ہوگی چھوٹے چھوٹے اقدام مثال کے طور پر میزبان اور دیگر کمیونٹیز سے مل کر بک کلب / debating societies / انتر فیتھس گروپس کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے _جہاں ایسے گروپ موجود نہ ہوں وہاں دیگر مزاہب کے اشتراک سے انہیں تشکیل دیا جاسکتا ہے جن سے مسلم کمیونٹی کے متعلق عمومی تاثر بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔مقامی پولیس اور کونسلوں کے ساتھ مسلم کمیونٹیز کی ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دی جا سکتی جن سے باہمی تعاون کے تحت عدم اعتماد اور تحفظ کی کیفیات کا تدارک ہوسکتا ہے۔ اپنے غیر مسلم ہمسایوں کے ساتھ میل جول اور باہمی احترام کی فضا پیدا اور اجنبیت اور خوف کی فضا کو ختم کیا جا سکتا ہے اور مشترکہ کمیونٹی سیفٹی کے پراجیکٹ اور رضاکارانہ سرگرمیوں کا احیاء کر سکتے ہیں۔