ماضی کے چند واقعات

April 13, 2014

دنیا کی45 سالہ سیاحت میں راقم کے ساتھ ایسے کئی ناقابل فراموش واقعات بھی پیش آئے جنہیں میں قارئین کی معلومات میں اضافے کیلئے تحریر کر رہا ہوں۔غالباً 1973ء میں شہنشاہ ایران کے دور میں تہران میں جمعہ کی نماز کیلئے مسجد تلاش کر رہا تھا اول تو اس زمانے میں ایران کا شمار تمام خلیجی ریاستوں کے سامنے سب سے جدید تعلیم یافتہ ملکوں میں ہوتا تھا، معلوم ہوا کہ پورے تہران میں ایک بھی مسجد نہیں ہے صرف امام بارگاہیں ہیں مزید معلومات حاصل کیں تو ایک پاکستانی سے ملاقات ہو گئی اس نے بتایا صرف پاکستانی سفارت خانے میں ایک مسجد ہے چنانچہ وہاں کا پتہ لیا اور ٹیکسی سے نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے ہوٹل سے وضو کر کے روانہ ہو گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور انگریزی سے نابلد تھا راقم نے اسکول کے زمانے میں فارسی اختیاری مضمون کے طور پر پڑھی تھی اسے فارسی میں سمجھانے کی کوشش کی معلوم ہوا ایرانی فارسی کا لہجہ بالکل مختلف ہے۔ اشاروں سے کچھ ملے جلے الفاظ کا سہارا اور سفارت خانہ پاکستان اس کی سمجھ میں آگیا وہ گھوم گھما کر اس بڑے بازار میں اتار کر چلا گیا جہاں کئی اور سفارت خانے بھی تھے عوام انگریزی اور اردو سے نابلد تھے ۔جمعہ کی نماز کا وقت بھی نکلا جا رہا تھا اتنے میں ایک پڑھا لکھا شخص سوٹ پہنے آتا نظر آیا ۔میں نے اس سے انگریزی میں بات چیت کی اس نے کہا میرے پیچھے چلے آئو کئی گلیاں گزر کر ہم بالآخر پاکستانی سفارت خانے پہنچ گئے ہم نے اس کا شکریہ ادا کرکے گیٹ کی طرف بڑھنا شروع کیا تو اس نے انگریزی میں کہا بغیر معاوضہ دیئے تم کیسے جا سکتے ہو۔ مجھے تعجب ہوا پوچھا کیسا معاوضہ اس نے کہا راستہ بتانے کا، جس کی وجہ سے میرا قیمتی وقت ضائع ہوا ہے ہم نے پوچھا کتنا معاوضہ لو گے۔ بولا دس ڈالر، میں نے بتایا اتنے پیسے تو ٹیکسی والے اتنی دور سے بھی آکر نہیں لئے وہ بگڑ کر کہنے لگا میں پڑھا لکھا ہوں تم نے کیا مجھے ٹیکسی ڈرائیور سمجھا ہے؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، خاموشی سے جیب سے دس ڈالر نکال کر دیئے۔ تب جا کر جان چھوٹی اور نماز جمعہ پڑھی۔ واپسی پر خاموشی سے ٹیکسی پکڑی اور ہوٹل آگیا۔
دوسرا ایسا ہی ملتا جلتا واقعہ لبنان میں 1975ء میں پیش آیا میں لندن سے براستہ بیروت، جدہ عمرہ کرنے کیلئے بیروت ایک دن رک کر دوسرے دن کی فلائٹ سے روانہ ہونا تھا آنے سے قبل میرے ایک دوست جو بیروت میں کاروبار کرتے تھے ان سے بھی ملنا تھا اتفاق سے فلائٹ لیٹ ہو گئی وہ دوست بھی ایئرپورٹ سے واپس اپنے گھر لوٹ گئے۔ میرے پاس ان کے گھر اور دفتر دونوں کا پتہ تھا ائیرپورٹ سے جہاز والوں کی طرف سے مفت ٹھہرنے کا بندوبست تھا ان کی گاڑی میں ایئرپورٹ سے ہوٹل پہنچا رات ہو چکی تھی، سامان ہوٹل میں رکھا باہر نکل کر ٹیکسی کو ہاتھ دیا پتہ دکھایا ٹیکسی والے سے آنے جانے کا کرایہ تیس ڈالر طے ہوا ۔راستہ کافی لمبا تھا دوست کے فلیٹ پر پہنچا معلوم ہوا دوست گھر پر نہیں اور رات بھی گزر چکی تھی دوسرے دن صبح صبح میرے دوست کا ہوٹل فون آگیا اس نے کہا گھر آکر ناشتہ ساتھ کر لو بات چیت بھی ہو جائے گی پھر میں تمہیں ایئرپورٹ بھی چھوڑ دوں گا میں نے کہا کل رات میں ٹیکسی سے آیا تھا کئی جگہ ٹیکسی والے نے روک کر پتہ پوچھا تھا کہیں ایسا نہ ہو میں بیروت شہر میں بھٹک جائوں اس نے ہنس کر کہا اچھا تم ہوٹل کے باہر کارنر تک پہنچو سامنے والی تیسری گلی کی دوسری بلڈنگ فلاں رنگ کی ہے میں نیچے پہنچتا ہوں میں ہوٹل سے کارنر تک پہنچا۔ ابھی دوسری گلی ہی کراس کی تھی کہ میرا دوست سامنے سے آتا نظر آیا۔ میرا تعجب سے منہ کھلا رہ گیا کہ جاتے وقت اور آتے وقت دونوں مرتبہ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے غیر ملکی سمجھ کر بیوقوف بنایا پھر میرے دوست نے بتایا کہ بیروت شہر صرف ایک ہی لمبی سڑک پر آباد ہے جس کے ایک طرف سمندر آخری سرے پر گلیوں کے ختم ہونے پر واقع ہے۔دوسری طرف عمارتیں اس زمانے میں میدان پر ختم ہوتی تھیں یہی سڑک ایئرپورٹ جا کر ختم ہوتی تھی اس سڑک کا نام الحمراء اسٹریٹ ہے ۔
جب کہ ایسا ہی ایک واقعہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں بھی پیش آیا تھا ہوٹل سے اتر کر میں نے ٹیکسی رکوائی اس کو پرچہ دیا جس پر پتہ درج تھا ٹیکسی والے نے پرچہ پڑھا اور کہا کیا تم 100گز دور تک پیدل نہیں جا سکتے؟ اس سڑک پر سیدھے 100گز چلے جائو مطلوبہ جگہ پر پہنچ جائو گے کیوں فضول پیسے ضائع کرتے ہو۔ واقعات تو لاتعداد پیش آتے رہے ایک اچھا واقعہ بھی کبھی نہیں بھول سکتا۔ چند سال قبل میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ بقر عید کی چھٹیاں گزارنے بنکاک گیا، اتفاق سے میری بیٹی کا پرس ٹیکسی میں رہ گیا جس میں نقدی، قیمتی زیورات، کریڈٹ کارڈ کے علاوہ مختلف کلبوں کے آئی کارڈ تھے ۔ٹیکسی ہم نے 3دن کیلئے بک کرائی تھی امید تھی ٹیکسی والا ضرور واپس آئے گا جب وہ سیٹ پر پرس دیکھے گا ۔ میری بیگم اور بیٹی بے چینی سے اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہیں مگر وہ نہ اس دن واپس آیا اور نہ دوسرے دن ۔ ہم نے اِ نَّاللہ پڑھی۔ ہماری تفریح بھی پھیکی پڑ گئی۔چوتھے دن میری بیٹی کے سسرال سے فون آیا کہ اس کا پرس پاکستانی سفارت خانے میں کوئی جاپانی شخص پہنچا گیا ہے۔ ہم کو سفارت خانے والوں نے فون پر اطلاع دی ہے ۔ اتفاق سے ہم روز اپنے ہوٹل سے منسلک پاکستانی سفارت خانے پر لگا جھنڈا دیکھ کر خوش ہوتے تھے بیٹی کو لے کر سفارت خانے پہنچے۔ایک بیچارہ جاپانی جس نے مجھے پرس لا کر دیا تھا بتایا کہ وہ اس ٹیکسی میں جب بیٹھا تو پائوں میں کوئی چیز اٹکی تو دیکھا ایک پرس تھا، کھول کر اس نے دیکھا تو زیورات ،نقدی سب سے اچھی بات پاکستانی آئی ڈی کارڈ تھا وہ ٹیکسی سے اپنے ہوٹل جانے کے بجائے پاکستانی سفارت خانے کا پتہ پوچھ کر یہاں لے آیا۔ تو یہاں عید کے دن کی چھٹیاں تھی۔ دو دن بعد جب سفارت خانہ کھلا تو اس نے پرس ہمارے قونصلر کے حوالے کر کے اپنا کارڈ بھی لگا کر واپس ٹوکیو روانہ ہو گیا پھر ہمارے سفارت خانے والوں نے کراچی کلب فون کر کے ہمارا پتہ لیا ۔خوش قسمتی سے بیٹی کا کارڈ تھااس پر اس کے سسرال کا پتہ اور فون نمبر درج تھا لہٰذا انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی کا پرس بنکاک کے سفارت خانے سے لے جائیں، میں نے بھی جاپانی مہربان کو فون کیا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے اضافی اخراجات ادا کرنے کی پیشکش بھی کی مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ میری قوم کی آزمائش تھی تو میں نے وہ فرض پورا کر دیا۔