ستائیسویں رمضان المبارک اورقیام پاکستان

July 24, 2016

میں بار بار ایک موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتا لیکن چونکہ اس موضوع کا تعلق تحریک پاکستان اورقیام پاکستان سے ہے اس لئے ریکارڈ کی درستگی اور تاریخ پاکستان کے بنیادی حقائق کو نوجوان نسلوں تک پہنچانے کے لئے وضاحت کرنی پڑتی ہے۔ میں نے جمعہ والے کالم میں عرض کیا تھا کہ تحقیق کے میدان میں کوئی حرف، حرف آخر نہیں ہوتا۔ نئے نئے شواہد سامنے آنے پر نتائج اور واقعات اپنی شکل و صورت بدل لیتے ہیں اسلئے حتمی رائے دینے سے گریز کرنامناسب ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کا یہ سلسلہ میرے اس کالم سے شروع ہوا جو میں نے 3 جولائی 16 کوستائیسویں رمضان المبارک کے موقع پر لکھا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ پاکستان 15,14 اگست کی نصف شب معرض وجود میں آیا، یہ ستائیسویں رمضان اور شب القدر کی مقدس گھڑیاں تھی اورپندرہ اگست کو، جس دن پہلا یوم آزادی منایا گیا، جمعۃ الوداع کااہم دن تھا۔میرے اس کالم کے جواب میں محترم منیر احمد منیر صاحب کاکالم 20 جولائی کو چھپا جس میں انہوں نے لکھا کہ ستائیسواں روزہ چودہ اگست کو تھا اس لئے لیلۃ القدر ہوئی 14, 13 اگست کی درمیانی شب۔ میں نے بلا تحقیق ان کے دعوے کو درست مان لیا لیکن اپنے موقف کے حق میں دو معتبر کتابوں کے حوالے دیے جن کے مطابق 15 اگست کو27 واں روزہ تھا اور 15,14 اگست کی نصف شب جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو یہ لیلۃ القدر تھی۔ میں وضاحت کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاں 27 ویں روزے کو لیلۃ القدر کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے حالانکہ مصدقہ احادیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاص رات کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنےکا فرمایا تھا۔ رمضان المبارک کی آخری راتوں میں نزول قرآن کا سلسلہ شروع ہوا چنانچہ یہ راتیں خاص اہمیت اور تقدس کی حامل ہیں اور ستائیسویں رمضان کی نصف شب قیام پاکستان کے تصور سے قوت ایمانی تازہ ہوتی ہے۔ فروعی اور غیر متعلقہ باتوںکے صرف نظر کرتے ہوئے آپ پہلے یہ پڑھ لیں کہ جناب منیر احمد منیر صاحب نے کیا لکھا۔ غیر متعلقہ باتوں سے مراد بعض معاملات پر اپنا اپنا نقطہ نظر اور رائے رکھنا ہے جن سے ان تاریخی حقائق کی صحت پر اثر نہیں پڑتا۔ انہوں نے لکھا روزنامہ جنگ میں 3جولائی 2016ء کو ڈاکٹر صفدر محمود کا کالم صبح بخیر بعنوان ’’ستائیسویں رمضان اور قیام پاکستان‘‘ شائع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان 14اور 15اگست کی نصف شب دنیا کے نقشے پر ابھرا اور اس کا پہلا یوم آزادی 15اگست1947ء کو منایا گیا۔ اس روز 27رمضان تھی ، جمعۃ المبارک کا دن تھا اور لیلۃ القدر تھی۔ ہم 14 اگست کو یوم آزادی مناتے مناتے 27رمضان کو بھول گئے ہیں حالانکہ اسی روز پاکستان وجود میں آیا‘‘۔
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب اپنے مضمون کا اختتام آخری وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کی پریس کانفرنس پر کرتے ہیں کہ ’’اس نے پریس کانفرنس کے آخری سوال کے دبائو کے جواب میں فوراً اعلان کردیا’’ہندوستان کو انتقال اقتدار 15 اگست 1947ء کو کردیا جائے گا‘‘۔ اسے اندازہ تھا نہ برطانوی حکمرانوں کو علم تھا کہ 15اگست مسلمانوں کے 27 ویں رمضان کا مبارک ہے اور 15, 14 کی شب ، شب قدر ہے۔ یہ قدرت کا فیصلہ تھا اوریقین رکھیے کہ قدرت کے فیصلے بلاوجہ نہیں ہوتے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب واحد شخص نہیں ہم ایک مدت سے سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ پاکستان 27ویں رمضان کووجود میں آیا۔ لیلۃ القدر شب قدر اس سلسلے میں مختلف اطراف سے 27 ویں رمضان سرکاری سطح پر بطور یوم قیام پاکستان منانے کا مطالبہ بھی جاری رہا۔ کئی لوگ اور تنظیمیں اس روز باقاعدہ یوم پاکستان مناتی بھی ہیں۔ ان میں ان دنوں نظریہ پاکستان فائونڈیشن پیش پیش ہے۔ حالانکہ بنیادی طور پر یہ ایک تحقیقی ادارہ ہے اور اس کے پاس ریسرچ اسکالرز بھی ہیں لیکن ان سے بھی مسلسل بھول ہو رہی ہے۔ اس لئے کہ پاکستان قطعاً 27ویں رمضان کو وجود میں نہ آیا تھا۔ 19جولائی 1947ء کو پہلا روزہ تھا۔ اس حساب سے 27 واں روزہ 14 اگست 1947ء کو تھا۔ اس طرح 27 ویں رمضان جسے لیلتہ القدر اور شبِ قدر کہتے ہیں وہ آئی 13 اور 14اگست 1947ء کی درمیانی شب۔ جبکہ پاکستان وجود میں آیا، جسے ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنے مضمون میں تسلیم کیا ہے، 14 اور 15اگست 1947ء کی درمیانی شب رات 12بج کر ایک سیکنڈ پر۔ اور یہ 27ویں اور 28ویں روزے کی درمیانی شب تھی۔ اس لئے یہ لیلتہ القدر نہ تھی۔
پاکستان 27 ویں کی شب قطعاً وجود میں نہ آیا تھا یہ 28 ویں کی شب دنیا کے نقشے پر ابھرتا ہے۔
میرا جناب منیر صاحب سے اتفاق کرنا شدید غلطی تھی اور بلاتحقیق مان لینا کہ 14 اگست 27ویں رمضان تھی غیر مناسب تھا جس کے لئے میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔ میں نے تین جولائی 16 کے کالم میں جو لکھا اور جس کی تائید پاکستان کرونیکل اور سید انصار ناصری کی کتابوں سے ہوئی وہ سو فیصد ٹھیک تھا۔ جمعہ کے دن میرا کالم چھپا تو تحریک پاکستان کے ایک معزز کارکن کا فون آیا۔ انہوں نے فرمایا میں عینی شاہد ہوں۔ 15 اگست کو 27 ویں رمضان تھی اور 15,14 اگست کی نصف شب بارہ بج کرچند سیکنڈ پر جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو وہ لیلۃ القدر تھی۔ 15 اگست کو پہلا یوم آزادی منایا گیا۔ اس روز جمعۃ الوداع تھا۔ میں نے قائداعظم کی تقاریر پڑھیں تو انہوں نے اپنے پیغامات برائے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس مورخہ 15 اگست 47 اورپھر پیغام بنام امریکی عوام فروری 1948ء میں کہا کہ پاکستان پندرہ اگست کو معرض وجود میں آیا۔ (بحوالہ خورشید یوسفی) چودہ اگست کو یوم آزادی منانے کا فیصلہ کابینہ نے 29 جون 1948ء کو کیا اور جولائی 1948ء میں اس فیصلے کی منظوری گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح سے لی گئی۔ اس موضوع پر پھر کبھی۔
اس حوالے سے میں مزید ثبوت اور شواہد کی تلاش میں تھا کہ راولپنڈی سے اسلم ملک صاحب نے روزنامہ ڈان کراچی کے پہلے پرچے مورخہ 15 اگست 1947ء کا تراشہ بھجوایا۔ اس پر واضح طور پر چھپا ہوا ہے 15 اگست 1947، 27 رمضان المبارک۔ میں نے مزید تصدیق کے لئے روزنامہ پاکستان ٹائمز دیکھا۔ اس پربھی لکھا ہے 15 اگست 1947، 27رمضان المبارک۔ یہ دونوں تراشے پاکستان کرونیکل کے صفحہ نمبر 2,3 پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اب یہ بات طے ہوگئی کہ پاکستان 27 رمضان المبارک 15,14 اگست کی نصف شب کو معرض وجود میں آیا جو عام تاثر کے مطابق لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ 15 اگست کو 27رمضان اور جمعۃ الوداع تھا ایک ایسی بنیادی حقیقت ہے جس کے بارے میں ابہام نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ابہام پیدا کرنا چاہئے۔