خو ش قسمت کاون اور بد قسمت۔۔۔۔۔۔؟

July 26, 2016

یہ بہت اچھی بات ہے کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر کے ہاتھی جس کا نام کاون ہے کی بے چارگی اور مظلومیت کے حوالے سے پارلیمنٹ ہاؤس کے ایوان بالا میں آواز اٹھائی گئی ہے ، ہمارے پارلیمنٹیرین کے دلوں میں جانوروں کیلئے یہ تڑپ یقیناً ایک حوصلہ افزا امر ہے، جانوروں کیلئے یہ تڑپ خالی چڑیا گھر کے ایک ہاتھی جس کی ایک ٹانگ کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا کیلئے نہیں ہونا چاہیے بلکہ چڑیاں گھر کے دیگر جانوروں کی تکالیف کا احساس کرنا چاہیے بلکہ گلی محلوں اور سڑکوں پر گھومنے والے بے چارگی اور مظلومیت کی تصویر نظر آنے والے کتے بلیوں کا بھی خیال کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ خصوصاً ایوان بالا میں ان کتے بلیوں اور جانوروں کیلئے ایک خصوصی بل منظور کرکے سرکاری طور پر ان کی دیکھ بھال کا قانون ہونا چاہیے ، دنیا کے سارے ترقی یافتہ ممالک میں پالتو ، آوارہ اور دیگر جانوروں کیلئے بہت غیر سرکاری تنظیمیں کام کررہی ہیں بلکہ حکومتیں بھی اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ کہیں جانوروں کی حق تلفی نہ ہورہی ہو، برطانیہ میں پولیس نے ایک گھر کے مالک کو نہ صرف اس وجہ سے جرمانہ اور سخت تنبہہ کی کہ وہ سیرو تفریح کیلئے جاتے ہوئے اپنے کتے کو گھرمیں اکیلا بے یار و مدد گار چھوڑگیااور کتا بے چارہ سخت سردی میں نہ صرف بندھا رہا بلکہ بھوک اور پیاس سے بے حال ہوکر عجیب عجیب آوازوں میں بھونکتا رہا، جس پر اہل اسٹریٹ نے پولیس کو آگاہ کردیا ۔اسی طرح برطانیہ میں ریسکیو والوں نے بلی کے ایک بچے کو جو اندھے گٹر میں گر گیا تھا نکالنے کیلئے نہ صرف کئی گھنٹے کام کیا بلکہ گٹر کے اطراف پختہ فٹ پاتھ کو بھی کھود ڈالا تاکہ آوارہ بلی کا بچہ اس گٹر میں نہ مرجائے اور مجھے آج بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے ملک میںبھی جانوروں کی محبت عود کر آئی ہے بلکہ چند روز قبل حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر کی کھو جانے والی بلی کی تلاش کیلئے پولیس کے اعلیٰ افسران سمیت کئی اہلکاروں کی دوڑیں لگی رہیں، مجھے تازہ ترین اطلاعات تو معلوم نہیں کہ وہ بلی ملی یا نہیں لیکن پولیس اہلکاروں نے اس اعلیٰ افسر کی پالتو بلی کے چکر میں ایک آوارہ بلی کو گرفتار کرکے پہلے اس کی جھاڑ پونچھ کی اس کو نہلا دھلا کر اس کو’’ غسل دستیابی ‘‘دلایا اور اعلیٰ سرکاری افسر کے سامنے پیش کردیا، لیکن پنجاب پولیس کی بدقسمتی کہ بلی کے اقراری بیان کے باوجود افسر نے نہ صرف اس بلی کو پہچاننے سے انکار کردیا بلکہ صاف صاف کہہ دیا کہ ان کا اس بلی سے کوئی تعلق نہیں ، آج سے کچھ عرصہ قبل رائے ونڈ کے محل میں ایک بلا بھی بہت سارے سرکاری پولیس افسران کی نوکریوں کیلئے خطرہ بنا رہا کیونکہ اس بلے نے رائے ونڈ کے ایک خوبصورت مور کو ہڑپ کرلیا تھا، یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ اس بلے کا تعلق کس گینگ سے تھا یا اس کی سوچ کس سیاسی جماعت سے ملتی تھی لیکن وہ بلا بالآخر ’’پولیس مقابلے‘‘ میں مارا گیا جس کے بعد پولیس نے نہ صرف جشن فتحیابی منایا بلکہ بلے کو دم سے پکڑ کر عبرت کا نشان بناتے ہوئے شاہی خاندان کو یہ یقین دلایا کہ شاہی جانوروں اور پرندوں کے خلاف ایسے عزائم رکھنے والے کتے بلوں کا اس سے بھی برا حال کیا جائے گا،چاہے انسداد بے رحمی حیوانات کا محکمہ مقامی سطح پر یا عالمی سطح پر کتنا بھی سخت رد عمل دے اور اگر بلے کی حما یت میں کاون ہاتھی کی طرح پارلیمنٹ ہاؤس میں کسی نے آواز بلند کی تو ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ اس حوالے سے آئین کیا کہتا ہے اور اگر بلے مار پولیس کے خلاف کارروائی کرنا بھی ہے تو اس کے ٹی او آرز طے کئے جائیں۔ہاں ہاں مجھے کچھ یاد پڑ رہا ہے کہ گزشتہ روز بارش کے بعد سڑک پر کھڑے پانی اور اس میں بجلی کی تار گرنے اور کرنٹ دوڑ جانے کی وجہ سے ایک خاتون اور ایک مرد جاں بحق ہوگئے ، اور آپ نے مختلف چینلز اور سوشل میڈیا پر یہ بھی دیکھا ہوگا کہ کس طرح معاشرے کے طاقتور لوگ عام لوگوں کی چھترول کررہے ہوتے ہیں، پولیس والے غریب اور بے اثر لوگوںکی تھپڑوں سے خاطر مدارت کرتے نظر آتے ہیں، اور ہم سب یہ بھی جانتے ہیں خالی لاہور میں غریبوں کے بچے درجنوں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں اغواء ہوکر غائب ہورہے ہیں، اب یہ حکومت کا کام تو نہیں ہے کہ وہ آپ کے بچوں کی نگرانی کرے یا بارشوں کے بعد آپ کی انگلی پکڑ کر کرنٹ والے پانی سے گزارتی پھرے ، عوام کو چاہیے کہ خود احتیاط کرے اپنے مسائل پر خود نظر رکھے البتہ یہ یاد رکھے کہ بوقت ضرورت گلا پھاڑ کر یہ نعر ے ضر ور لگائے ’’ ساڈا لیڈر شیر اے، باقی ہیر پھیر اے ‘‘، میں معذرت چاہتا ہوں کہ عوام کے حوالے سے چند سطور لکھ کر آپ کیلئے گرانی کا باعث بنا میں تو چڑیا گھر کے ہاتھی کا ون، افسر کی بلی اور شاہی محل کے جانوروں کی قسمت پر انہیں داد اور مبارکباد پیش کرنا چاہتا تھا اور اپنے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی خدا ترسی پر انہیں بھی مبارکباد دینا چا ہتا ہو ں ۔