اگر آپ اتنے ذہین ہیں تو

May 21, 2014

یہ سوال بڑا عام اور سادہ سا نظر آتا ہے کیونکہ معاشرے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ذہانت اور زندگی میں کامیابی کا چولی دامن کاساتھ ہے تاہم ہالینڈ میں ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ذہانت زندگی میں کامیابی میں مدد نہیں کرتی بلکہ الٹا اس کے آڑے آتی ہے اس موضوع پر کئے جانے والے ایک تحقیقی مقالے و مطالعے میں ڈچ پروفیسر برنک یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر اس ذہانت کا فائدہ کیا ہے کہ اچھی تنخواہ اور اعلیٰ نوکری کے باوجود کوئی ذہین شخص قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو؟ اس سوال کاجواب دینے کیلئے انہوں نے یورپ کے شماریات کے مرکزی ادارے کی جانب سے کئے جانے والے ایک سروے کابھی بغور مطالعہ کیا ہے جس میں ساڑھے دس ہزار کے لگ بھگ نوجوان خواتین و حضرات سے ان کے حالات زندگی کے بارے میں 25 سوالات پوچھے گئے تھے، اس سروے کے سائنسی جائزے سے انہیں معلوم ہوا کہ انسانی ’’آئی کیو‘‘ میں ایک اسکور کے اضافے کا مطلب ہے سالانہ آمدنی میں اوسطاً 394یورو کا اضافہ اس کی مثال یوں سمجھی جاتی ہے کہ اگر کسی کا آئی کیو 100اور سالانہ آمدنی60ہزار یورو ہے تو اس فارمولے کے تحت 120 آئی کیو والے شخص کی آمدنی 80ہزار یورو کے لگ بھگ ہو گی تاہم اس تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ آئی کیو والے افراد زیادہ پیسہ ضرور کماتے ہیں لیکن وہ اس پیسے کو بچا نہیں پاتے اور آخر میں ان کی مالی حالت کم آئی کیو والوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی اور جہاں تک معاشی پریشاں حالی کا معاملہ ہے زیادہ عقل یہاں بالکل بے کار ثابت ہوتی ہے، وہ لوگ جن کا آئی کیو 140سے زیادہ ہے (یعنی انتہائی ذہین لوگ) وہ کم آئی کیو (یاد رہے کہ اوسط آئی کیو100ہوتی ہے) والے افراد کے مقابلے میں قرضے کی قسطیں ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں ان کے دیوالیہ ہونے کی شرح15.1فیصد ہے جو محض80آئی کیو والے افراد کے قریب ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 80آئی کیو والے افراد کند ذہن افراد میں شامل ہوتے ہیں، پروفیسر برنک کی تحقیق کے مطابق صرف وہ لوگ معاشی بدحالی سے نسبتاً بہتر طریقے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں جن کا آئی کیو 100سے تھوڑا سا اوپر ہو تاہم اگر کسی کو قدرت کی طرف سے زیادہ آئی کیو ودیعت نہیں ہوئی اور اس وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہو رہا ہو تو اسے دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آسٹریلیا کے سائنس دان نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ زیادہ ذہانت اور زندگی میں کامیابی لازم وملزوم نہیں ہے اس لئے کم ذہانت والے افراد بھی معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں۔اس کیلئے یہ آسٹریلوی پروفیسر ایک ’’بقراطی ٹوپی بنا رہے ہیں۔آپ نے سیلمانی ٹوپی کے بارے میں تو سنا ہوگا جسے پہن کر انسان نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے لیکن اب آسٹریلیا کے سائنس دان ایک ایسی بقراطی ٹوپی ڈیزائن کر رہے ہیں جس کے پہننے والے کی چھپی ہوئی، ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جا سکے گا۔ اس ٹوپی کے اندر ایسے الیکڑانک آلات نصب ہیں جو ذہن کے بعض حصوں کو بند ( آف) اور دوسروں کو ’’آن‘‘ کرسکتے ہیں، ممکنہ طور پر انسان ایسی ٹوپی پہن کر زیادہ ذہین اور تخلیقی ہوسکتا ہے۔ آسڑیلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی کے پروفیسر ایلن شنائڈر اس ٹوپی پر تحقیق کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم سب میں ہرطرح کی صلاحیتیں خستہ حالت میں موجود ہوتی ہیں لیکن ہمیں ان صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں کہ مجھے ’’چیزیں مہمیز کرتی ہیں ایک تو مجھے خیالات کی ساکت جاننے کاشوق ہے کہ آخر ذہن کا بنیادی نقشہ اور بنیادی ڈھانچہ کیا اور کیونکر ہے؟ اور دوسری چیز یہ ہے کہ مجھے دنیا کی ’’حقیقی تصویر‘‘ دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہے ہم چیزوں کے اندازے اور تخمینے لگاتے ہیں اس کے بجائے اصلیت جاننا کتنا اچھا ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ سوچنے والی اس ٹوپی پر تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ ان اعلیٰ صلاحیتوں کو صرف ایسے موقعوں پر بروئے کار لایا جائے جب ان کی ضرورت ہو ٹوپی کے اندر ننھے منے مقناطیس لگے ہوئے ہیں جو سوچ کی لہروں کو متاثر کرتے ہیں، تجربات کے دوران سائنس دانوں نے دماغ کافنکارانہ صلاحیتوں سے مالامال حصہ بیدار کردیا اور بایاں حصہ وقتی طور پر بند کردیا، واضح رہے کہ ذہن کابایاں حصہ بنیادی طور پر وقتی یادداشت اور زبان وغیرہ سے متعلق ہوتا ہے اور تجزیاتی فرائض انجام دیتا ہے۔یہاں ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ دنیا میں95فیصد کم عقلمندوں سے عقلمند ترین لوگ رقم اور روپے پیسے کی طاقت کو مانتے اور اس طاقت کے کرشمے کو لاشعوری طور پر سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنے کالم کے آغاز میں ذہین لوگوں کی مالی حالت پتلی ہونے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پیسے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سے دنیا پر معاشی واقتصادی بحران ٹوٹا ہے لوگوں میں ذہنی امراض اور ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے، بے ورزگار افراد جن کے لئے پیسے کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے وہ پریشانی کی بلند سطح پر پہنچ کر ذہنی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بیشتر اختلافات اور قتل وغارت کا سبب بھی کسی نہ کسی طرح دولت ہی قرار پاتی ہے۔ پیسہ انسان کیلئے اگرچہ بنیادی ضرورت کی حیثیت نہیں رکھتا لیکن اس کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ ماہرین نے یہ بھی دیکھا ہے کہ روپے پیسے کی موجودگی باقاعدہ ’’بلڈ کیمسٹری‘‘ میں تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ جدید طبی ، نفسیاتی اور جنیاتی تحقیق کے مطابق جیب میں پیسے کی موجودگی انسانی طبیعت میں فرحت اور تازگی پیدا کرتی ہے، موڈ میں تبدیلی کے اس عوامل پر ہونے والی تحقیق کے مطابق عورتیں اس عمل سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جو مردوں سے79گنا زیادہ ہے خانگی مسائل کی زیادہ وجہ بھی جیب میں پیسے نہ ہونا ہے کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ پیسے سے ایسے بہت سے مسائل دب جاتے ہیں جو عام حالات میں لڑائی جھگڑوں اور علیحدگی کاسبب بنتے ہیں اور آئے روز کے قتل وغارت میں بھی غربت کا کہیں نہ کہیں ہاتھ نظر آتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پیسے سے خوشی و مسرت نہیں خریدی جاسکتی لیکن پیسے کے ساتھ وہ چیزیں ضرور خریدی جاسکتی ہیں جس سے انسان کو طمانیت اور خوشی ہوتی ہے کہ خوشی ایک احساس کا نام ہے اور اکثر احساسات گردوپیش کے تابع ہوتے ہیں، میرے حساب سے خوشی کا انحصار اس پر بھی ہے کہ آپ کتنے صحت مند ہیں ؟ یعنی انسانی صحت کو خوشی حاصل کرنے میں پہلا مقام حاصل ہے، اس کے بعد پیسہ ہے یعنی جب ہتھیلی میں آتا ہے تو وہ خوشی کا احساس دلاتا ہے اور استحصال و ناجائز ذرائع سے حاصل کیا جانے والا قارون کا خزانہ بھی ایک دیانتدار آدمی کوسوائے خلش کے کچھ نہیں دیتا۔ ماہر نفسیات نے کہا ہے کہ خوش رہنے کیلئے آپ کو ایک خاص حد تک پیسے کی ضرروت ہوتی ہے اگر آپ کی آمدنی اس خاص سطح سے کم ہے تو اس میں اضافہ کر کے آپ اپنے لئے مزید خوشیاں خرید سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی آمدنی اس حد سے زیادہ ہے تو پھر اس کے بعد جیسے جیسے آپ کی آمدنی بڑھتی ہے خوشی کا احساس کم ہوتا جاتا ہے۔