غلط فیصلے برباد کر دیتے ہیں

July 29, 2016

ایاز امیر کا کالم پڑھ کر دکھ ہوا کہ کس انداز میں ہماری خوبصورت وادیوں کو برباد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سالٹ رینج کے گرد کہون اور ونہار کا تذکرہ بڑی تفصیل سے کیا چونکہ ایاز امیر چکوال سے قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں، اس لئے وہ اس علاقے سے پوری طرح آگاہ ہیں، یہ علاقہ عسکری حوالے سے خاصا معروف ہے، خود ایاز امیر ایک زمانے میں فوج کا حصہ تھے، چکوال کے مغلوں میں ان کا خاص احترام ہے، ویسے ان کا احترام تو جہان بھر کے اہل دانش کرتے ہیں۔ جس علاقے کی بربادی کا تذکرہ انہوں نے گزشتہ کالم میں کیا ہے واقعی یہ علاقہ بہت خوبصورت ہے، میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک کلاس فیلو راجہ عظیم کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے۔ کلر کہار میں تخت بابری کے آس پاس راجہ عظیم کی زمین ہے جہاں باغات ہیں، سبزہ ہے۔ اگر کبھی آپ کلر کہار سے چوا ٓسیدن شاہ جائیں تو بل کھاتی ہوئی سڑک کے گرد خوبصورتی بکھری ہوئی ہے۔ پنجاب کی سیاست کو خوب سمجھنے والے راجہ منور کا تعلق اسی چوآسیدن شاہ سے ہے ویسے تو سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ بھی اسی دھرتی میں پیدا ہوئے تھے۔ صنعت کاری میں عروج پانے والے سہگل چکوال ہی کے ہیں۔ مجھے ایک روز راجہ عظیم چکوال کے ہاکی گرائونڈ میں لے گئے اور بتانے لگے کہ ....’’اسی گرائونڈ نے سلیم شیروانی اور دارا جیسے کھلاڑی پاکستان کی ہاکی ٹیم کو دیئے....‘‘ میڈیا کے حوالے سے بھی چکوال بڑا زرخیز خطہ ہے، ایک زمانے میں مرحوم شورش ملک سے یارانہ تھا اور موجودہ عہد میں خوشنود علی خان، سعید قاضی اور طلعت حسین سے دوستی ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے۔ ایک ایسی دھرتی جس کا مردم خیزی میں اپنا مقام ہے، اسے کس طرح برباد کیا جا رہا ہے۔ اس کا پورا قصہ ملک کے نامور دانشور ایاز امیر نے اپنے کالم میں لکھ دیا ہے، کس طرح ایک صوبائی وزیر اپنے علاقے سے دشمنی کر رہے ہیں۔ ایسے ہی غلط فیصلوں کی سزا لوگوں کو برسہا برس بھگتنا پڑتی ہے۔
مجھے اسی علاقے سے جڑے ہوئے ایک علاقے کا قصہ یاد آ رہا ہے۔ اگر آپ کلر کہار میں تخت بابری کے پاس سے گزرتی ہوئی سڑک سے سفر اختیار کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ پہاڑ پر سبزہ ہے اور خاص طور پر وادیٔ سون سکیسر میں تو پانی کے مسائل بھی نہیں ہیں، وہاں کا موسم بھی عمدہ ہے اور فصلیں بھی کاشت ہوتی ہیں مگر کوہستان نمک سے لپٹا ہوا علاقہ بنجر ہے، یہ علاقہ مہاڑ کے نام سے مشہور ہے، اس کی بربادی بھی ایک غلط فیصلے کے باعث ہوئی۔ اس بارانی علاقے کو نہری پانی کی ضرورت تھی چونکہ مہاڑ میں سینکڑوں فٹ گہرائی میں پانی ہے اور کوہستان نمک کا دامن ہونے کے باعث پانی نمکین ہے۔ ماہرین زراعت کے مطابق فصلوں کے لئے نمکین پانی کسی طور بھی فائدہ مند نہیں ہے لہٰذا اس علاقے میں ٹیوب ویل کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں۔ کوہستان نمک سے یاد آیا کہ برادر بزرگ بریگیڈیئر اختر نواز جنجوعہ کا آبائی گھر کوہستان نمک کے بالائی حصے میں ہے، مجھے وہاں جانے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔
پہاڑوں میں سے بل کھاتی ہوئی سڑک خوشاب اور جوہر آباد پہنچ جاتی ہے۔ جوہر آباد مجھے اس لئے اچھا لگتا ہے کہ میری زندگی کے دو بہترین دوست اسی جوہرآباد کے ہیں، دونوں کے والد درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ علی محسن شاہ کے والد بزرگوار بھی پڑھاتے رہے اور دوسرے دوست جن کا نام میں جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا، ان کے والد گرامی القدر بھی لوگوں میں علم کا فیض تقسیم کرتے رہے۔ اسی بات نے انہیں سلطان بنایا۔ ویسے تو میری دوستی سمیرا ملک اور طاہر سرفراز اعوان سے بھی ہے۔ سمیرا ملک اس علاقے سے تین بار قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ میرے ایک اور دوست ملک شاکر بشیر اعوان بھی خوشاب ہی سے ایم این اے ہیں۔ مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ضلع خوشاب کی برباد زمینوں کی خوشحالی کے لئے وکالت مشکل بنی ہوئی ہے۔ ضلع خوشاب کے پہاڑی علاقے وادیٔ سون، خوشاب اور جوہر آباد کی شہری آبادیوں کے علاوہ ضلع خوشاب کی مشرقی سرحد سے لے کر کالاباغ تک اعوان قبیلے کی اکثریت آباد ہے، اس پوری پٹی میں ہزاروں ایکڑ زمین بارانی ہے اسی لئے یہاں کے باسیوں کے مقدر میں دیارِ غیر میں مزدوری یا پھر وطن عزیز میں سرکاری ملازمتیں ہیں۔ مہاڑ کے اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ملک احمد نواز اعوان ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے، وہ اپنی پانچ مربع اراضی کے بارے میں اکثر متفکر رہتے تھے۔ اس زمانے میں وہ راشد بھنڈارہ اور میاں سہیل انور جیویکا سے کہا کرتے تھے کہ آپ کے علاقوں میں نہری پانی ہے جبکہ ہمارا ستیاناس خضر حیات ٹوانہ کر گیا۔ پوری پٹی کے لوگ آج بھی خضر حیات ٹوانہ کے ایک غلط فیصلے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان لوگوں کی تنگدستی اور پسماندگی کی وجہ ان کا ایک سیاسی فیصلہ بنا۔ قیام پاکستان سے پہلے خضر حیات ٹوانہ نے اس علاقے سے پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ ان کے مدمقابل اعوان قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہو گیا، ٹوانہ صاحب کو اپنے خلاف برادری کی بنیاد پر چلنے والی تند و تیز انتخابی مہم کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی انتخابی مہم کے دوران خضر حیات ٹوانہ نے یہاں کے اعوانوں کو سبق سکھانے کا ارادہ کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ خضر حیات ٹوانہ اپنے مدمقابل امیدوار کو دستبردار کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں وہ الیکشن جیت کر پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ دوران اقتدار جب ٹوانہ صاحب کو دریائے سندھ سے مہاجر برانچ نکالنے کا موقع ملا تو انہوں نے اعوانوں کے رقبے کو غیرآباد رکھنے کے لئے انتقاماً نہر کو جنوب کی جانب مڑوا دیا تاکہ ڈھلوانی ساخت کی زرعی زمین کاشتکاری سے محروم رہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج یہ ہزاروں ایکڑ گندم، گنا اور چاول پیدا کر رہے ہوتے۔ اس علاقے کے لوگ آج بھی خضر حیات ٹوانہ کی دی ہوئی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس سزا کو ختم کرنے کے لئے ایک کوشش نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان کے دور میں ہوئی تھی مگر ان کی عہد سے سبکدوشی اور غیرطبعی موت نے اس کاوش پر پانی پھیر دیا۔
برسوں بعد 1989ء میں چوھہ کے نمبردار ملک قادر بخش اعوان نے اس وقت کے رکن قومی اسمبلی ملک نعیم خان کی توجہ اس دیرینہ مسئلے کی جانب مبذول کروائی تو محکمہ آبپاشی پنجاب نے تین لفٹ اریگیشن سکیموں کی منظوری دی جنہیں لگ بھگ پندرہ کروڑ کی مالیت سے مکمل ہو کر تقریباً نو ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کرنا تھا جس سے ہزاروں خاندانوں کو آسودہ ہونا تھا۔
ان اسکیموں پر کام کا آغاز ہوا، نالوں کی کھدائی ہوئی، مزدوروں کی رہائش گاہیں بن گئیں، بجلی کے کھمبے لگ گئے، واٹر پمپ تک لگائے گئے مگر پھر منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ایسا رکا کہ اب تک رکا ہوا ہے۔ ملک نعیم نے دوران علالت میاں شہباز شریف کے دور میں فنڈز کا اجرا کروایا مگر پھر کچھ نہ ہو سکا۔
2001ء کی بات ہے میں ملت پارٹی کے رہنما ملک افتخار اعوان کے ساتھ سیاسی گپ شپ کر رہا تھا کہ ایسے میں ملک احمد نواز آ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ خیر ہے، اسلام آباد کیسے آنا ہوا، آپ کو ضرور چاچا قادر بخش اعوان نے کسی کام سے بھیجا ہو گا۔ اس پر ملک احمد نواز کہنے لگے کہ ....’’آپ کو پتہ ہے کہ میں ذاتی کام سے زیادہ اجتماعی مفاد کے لئے بے چین رہتا ہوں، میں اسی کام کے لئے سرگرم ہوں کہ اگر ان اسکیموں پر عمل ہوجائے تو ہمارے علاقے کی تقدیر بدل جائے گی....‘‘ بعد میں ملک احمد نواز اعوان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری امیر حسین کے ذریعے کاوش کی مگر انہیں ناکامی ہوئی۔ میرا دوست اور ان کے والد آج بھی اسی تگ و دو میں ہیں کہ کسی صورت ان اسکیموں پر عملدرآمد ہو جائے کیونکہ ان منصوبوں میں کروڑوں روپے کی خوردبرد ہو چکی ہے اور آج حالت یہ ہے کہ کھمبے زنگ آلود ہیں، رہائشی عمارتیں گر چکی ہیں، کچھ سامان چوری ہو چکا ہے، زمین اسی طرح بے آباد ہے۔ اب ایک جرنیل نے کوششیں شروع کر دی ہیں خدا کرے اس علاقے کی تقدیر بدل جائے۔ اس پٹی میں جو علاقہ ضلع میانوالی کی حدود میں ہے، اسے دیکھنے کا اتفاق مجھے انتخابی مہم کے دوران ہوا تھا، گزشتہ الیکشن میں، میں عائلہ ملک کے ساتھ اس علاقے میں پھرتا رہا ہوں۔ ایک غلط فیصلے نے ہزاروں ایکڑ اراضی کو بنجر بنا رکھا ہے۔ خضر حیات ٹوانہ نے اکثریت کو خوشحالی سے محروم کیا اور حالت یہ ہے کہ ان کی بیٹی شہزادی عمرزادی ٹوانہ آج بھی مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے سپیشل سیٹ پر قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ بقول غالب ؎
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا



.