سانحہ کوئٹہ:سی پیک منصوبے کے خلاف سازش!

August 10, 2016

سانحہ کوئٹہ پر جہاں پوری قوم سوگ اور صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے حکومت پر زیادہ سخت حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے زور دے رہی ہے وہاں سیاسی اور عسکری قیادت بھی سرجوڑ کر بیٹھ گئی ہے اور قومی اسمبلی نے بھی پیر کو معمول کے ایجنڈے پرکارروائی روک کر اس اندوہناک واقعے پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے غور وفکر کے کئی نئے زاویے سامنے آئے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ میں دہشت گردوں کی کارروائی کو جس میں ستر سے زائد وکلا اور دوسرے بے گناہ افراد شہید ہو گئے، بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری کو نشانہ بنانے کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے کئی اہم فیصلے کئے گئے۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں ایف سی اور محکمہ انسداد دہشت گردی کی استعداد کار بڑھانے اور تمام ریاستی اداروں کو دہشت گردوں کا پوری قوت سے جواب دینے کی ہدایت کی۔ انہوں نے شہدا کے لواحقین سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت امن و امان کے مسئلے پر ایک الگ اجلاس بھی ہوا جس میں کمانڈر سدرن کمانڈ کے علاوہ صوبائی وزیراعلیٰ بھی شریک تھے۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہاکہ اس سانحے میں دراصل سی پیک منصوبے کو نشانہ بنایا گیا ہے، انہوں نے سکیورٹی فورسز اور ایجنسیوں سے کہا کہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے جہاں چاہیں کارروائی کریں اور ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کیا جائے۔ قومی اسمبلی میں سانحہ کوئٹہ پر بحث کے دوران اپوزیشن نے حکومتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں متعلقہ اداروں کی ناکامی کو اجاگر کیا۔ ایسے موقع پر جب بلوچستان بھر میں یوم آزادی کا جشن منانے کی تیاریاں عروج پر ہیں کوئٹہ میں پہلے بار ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر کی ٹارگٹ کلنگ اور اس کے بعد سول اسپتال میں ان کی میت لینے کے لئے آنے والے وکلا، صحافیوں اور دوسرے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں، اس سے قبل شہر میں جشن آزادی کے لئے قومی پرچم فروخت کرنے والے ایک دکاندار کو اس کی دکان میں فائرنگ کرکے قتل کیا جا چکا ہے جو سول اسپتال میں خود کش دھماکے کی کڑی ہی لگتا ہے اس سازش کے پیچھے کارفرما اصلی ہاتھ بے نقاب کرنے کے لئے بلوچستان میں بعض بیرونی طاقتوں کی غیر معمولی دلچسپی اور حالیہ مہینوں میں ان کے ایجنٹوں کی گرفتاری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ داعش اور کالعدم جماعت الاحرار نے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے مگر ان کے پیچھے کونسی قوتیں ہیں ان کی نشاندہی بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ بلوچستان میں اسی نوعیت کے گزشتہ حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے مبصرین بھارتی اور افغان ایجنسیوں ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس تجزیے کو بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر کے اس بیان کے تناظر میں دیکھا جائے جس میں انہوں نے پاکستان کے خلاف ’’دفاعی حملہ‘‘ شروع کرنے پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سلسلے میں انتہا پسندوں کی کرائے پر خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں تو بات بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔ انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ ممبئی حملوں جیسی ایک اور کارروائی ہوئی تو پاکستان کو بلوچستان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ ان کا یہ بیان بھارت کے عزائم کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ پھر بھارتی حکمران پاک چین اقتصادی راہداری کی بھی کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں کوئٹہ کا واقعہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کی سازش کا ہی حصہ ہو سکتا ہے۔ بھارت نے افغانستان اور بنگلہ دیش کو بھی اس معاملے میں اپنا ہمنوا بنا لیا ہے جس سے صورت حال مزید واضح ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں عوام کو بھی حکومت اور مسلح افواج کی ساتھ متحرک ہونا پڑے گا اور اپنے ارد گرد دشمن کے ایجنٹوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ قوم متحد اور منظم ہو کر ہی ملکی سلامتی کے خلاف ان سازشوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔