ملکی بقا اور ترقی اولین ترجیح!

August 15, 2016

14اگست کو یوم آزادی کے موقع پر صدرمملکت ممنون حسین اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے جو پیغامات دیئے انہیں خاص طور پر اس بنا پر پاکستانی عوامی کے دلوں کی آواز کہا جا سکتا ہے کہ ان میں ملک کی سلامتی، بقا اور استحکام کیلئے ہر دنیاوی مفاد قربان کردینے کا عزم نمایاں ہے۔ یہ وہ عزم اور جذبہ ہے جو 69 برسوں کےدوران ہر قسم کے سرد و گرم حالات سے گزرنے کے باوجود پاکستانی عوام کے دلوں میں زندہ و توانا ہے۔ ایسے وقت ،کہ اس مملکت کے قیام کی مخالفت کرنے والی قوتیں ایک بار پھر کھل کر اس کے خلاف سرگرم نظر آ رہی ہیں، مذکورہ عزم کی تجدید پاکستانی عوام کیلئے ہی نہیں ظلم و ستم اور محکومی کی چکی میں پسنے والے ان تمام لوگوں کیلئے حوصلہ افزا ہے جنہیں دشمنوں کی سازشوں کے ساتھ ساتھ ’’اپنوں‘‘ پر اعتماد کے بعض منفی نتائج کے صدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اس بار پاکستان کا یوم آزادی ایسی کیفیت میں آیا جب ایک طرف کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ میں وکلا کی بڑی تعداد کی شہادت کا غم تازہ ہے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے عوام سات لاکھ سے زیادہ بھارتی فوج کے ظلم، جبر، کرفیو اور کالے قوانین کے بے محابا استعمال کا سامنا اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پیغام میں اس یوم آزادی کو اہل کشمیر کے نام معنون کیا جنہوں نے ریاستی جبر کے باوجود آزادی کے جذبے کو زندہ رکھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے وطن کی آزادی برقرار رکھنے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدائے کوئٹہ کا تذکرہ کیا۔ اس تذکرہ میں درحقیقت ان تمام طلبہ، اساتذہ، علما، صحافیوں، ڈاکٹروں، بیورو کریٹس اور عام لوگوں کیلئےگلہائےعقیدت بھی موجود ہیں جنہوں نے نگار وطن کیلئے متاع جاں نذر کی۔ یہ ان فوجی افسروں اور جوانوں کیلئے بھی خراج عقیدت ہے جنہوں نے وطن عزیز کو غیر ملکی ایجنٹوں اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے دادشجاعت دی اور شہادت کے مراتب پر سرفراز ہوئے۔یہ ان اہل وطن کی قربانیوں کا اعتراف بھی ہےجنہوں نے آپریشن ضرب عضب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئےذاتی گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی وطن میں مہاجرت کی صعوبتیں پوری آمادگی کے ساتھ برداشت کیں۔ صدر مملکت ممنون حسین نے درست طور پر وطن عزیز کو گزشتہ برسوں میں درپیش مشکلات،قیام امن کے حکومتی عزم، افواج پاکستان اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے موثر کردار اور بحال ہوتے ہوئے امن کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے بارے میں اجتماعی اتفاق رائے کے بھی مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں جنہیں مزید ثمرآور بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اصلاح کا عمل اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے گروہ، طبقے اور مکتب فکر سے شروع کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ تمام باتیں قوم کی خواہشات اور امنگوں کے عین مطابق ہیں۔ مگر انہیں سالانہ روایتی خطبات اور پیغامات سے آگے بڑھ کر عملی شکل میں پوری طرح نظر آنا چاہئے۔ اس وقت ملک کودرپیش دہشت گردی کے چیلنج پر قابو پانے کی جو تدابیر آخری مراحل میں نظر آ رہی ہیں ان میں قومی ایکشن پلان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہےاور اسکی تمام شقوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر معمولی حالات کے پیش نظر فوجی افسروں کی سرکردگی میں تیز رفتار سماعت کرنے والی عدالتوں کے قیام اور رینجرز کو بعض خصوصی اختیارات دینے کے علاوہ ایک ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ بھی سامنے آیا۔ تاہم چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سیکورٹی کی تشکیل کے ذریعے اجتماعی قیادت سامنے لانے کی جو تجویز پیش کی ہے اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ ملکی بقا اور ترقی ہماری تمام پالیسیوں کا مرکز و محور ہونا چاہئے اور اس ضمن میں تعلیمی نصاب میں مطالعہ پاکستان سمیت حالات حاضرہ کے تجزیے کے پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ دستور پاکستان کی حقوق انسانی کی شقوں کو مقدم رکھنا، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر توجہ مرکوز رکھنا اور امارت و غرت کی خلیج گھٹانا بھی حکومت کی اولین ترجیحات کا حصہ ہونا چاہئے۔

.