لانگ مارچ اور سیاسی پنچھیوں کی اڑان

August 05, 2014

برطانیہ میں سرے کی انگلش کاونٹی کے خوبصورت علاقے میں دریائے ٹیمز بہتا ہے۔ ٹیمز کے کنارے سبزہ زار میں ایک خوبصورت یادگار نصب ہے۔ جس پر درج عبارت 13 ویں صدی کے ایک واقعہ کی یاد دلاتی ہے۔ رینی میڈ میں جب برطانوی بادشاہ جان کو شاہی اختیارات سے برہم لوگوں کی محالفت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ بادشاہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق عطاکرے تاکہ ان کے اعتراضات دور ہوسکیں۔ شدید دباؤ کے تحت بالاآخر بادشاہ نے ایک دستاویز پر اپنی مہر ثبت کر دی جو بعد میں میگنا کارٹا کے طور پر مشہور ہو گئی۔ میگنا کارٹا کے ذریعے برطانوی عوام نے 1215 میں رینی میڈ کے مقام پر اپنے بادشاہ جان کو مجبور کیا کہ وہ یہ مانے کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اس دستاویز کو ’’مغرب کی تاریخ کی واحد اہم ترین دستاویز‘‘ کے طور پر صرف اس لئے جانا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انسان کو اپنے حق کی جدوجہد کے بدلے میں بنیادی انسانی حقوق سے نواز کر اسے قانونی شکل دی گئی۔میگنا کارٹا ( Magna Carta ) انسانی تاریخ کی ایک اہم قانونی دستاویز ہے۔ میگنا کارٹا نے تاریخ عالم پر گہرے اثرات مرتب کئے۔دنیا کے کئی ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کے حکمران ابھی تک اس اصول کو ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ قانون ان سے بالا تر ہے۔حکمران طاقت کے نشے میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ انہیں اپنا ہر فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔فاروق لغاری مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ کرسی کا نشہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔
آج جب مسلم لیگ ن کی حکومت کو ڈیڑھ سال کا عرصہ بھی مکمل نہیں ہوا اور مڈٹرم الیکشن کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ۔کپتان لانگ مارچ کرنے پر بضد ہیں توڈاکٹرطاہر القادری انقلاب لانے پر مصر ہیں جبکہ چوہدری برادران مسلم لیگ ن کے مینڈیٹ کو دھاندلی گردانتے ہوئے بساط لپیٹنے کے چکر میں دکھائی دیتے ہیں۔اتنے قلیل عرصے میں ملک کے ایسے حالات دیکھتا ہوں تو دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کا پہیہ اپنے سفر پر رواں دواںکیوں نہیں ہو پارہا۔آج اگر حکومت کے لئے مسائل بڑھ رہے ہیں اور حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں تو اس سب کے ذمہ دار کون ہیں۔کیا مسلم لیگ ن کے ارباب و اختیاراس سب کے ذمہ دار ہیں؟؟؟بارہا عرض کرچکا ہوں کہ سیاسی مخالفت کا مقابلہ سیاسی قوت سے کیا جاتا ہے نہ کہ سول افسران کی چکنی چپڑی باتوں سے۔آج پنجاب کے 300جبکہ وفاق میں 200کے لگ بھگ ارکان اسمبلی پارٹی قیادت سے شدید ناراض ہیں تو کیوں ہیں؟؟کئی درجن ارکان اسمبلی تو ایسے ہیں جنھیں آج تک پارٹی قیادت سے ہاتھ ملانے کا بھی شرف حاصل نہیں ہوا۔عمران خان کی جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کو انتظامیہ کی قوت سے نہیں بلکہ سیاسی نمائندوں کی بصیرت سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔
حکمران اگر ان سارے حالات سے نبرد آزما ہونا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اپنی جماعت کے منتخب نمائندوں کو جائز اختیارات اور معقول عزت بخشیں۔موجودہ وزیر اعظم کو یاد ہوگا کہ جب آپ 9اپریل 1985کو پنجاب کے وزیر اعلی منتخب ہوئے تو آپ نے گورنر ہاؤس پنجاب میں ارکان اسمبلی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج سے میںنہیں بلکہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اپنے ضلع کا وزیر اعلی ہے۔آج بھی مسلم لیگ ن کے بہتر مفاد میں ہوگا کہ اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی کے جائز کاموں میں انتظامیہ کو رکاوٹ نہ بننے دیں۔میاں شہباز شریف کی میرٹ اور صرف میرٹ کی پالیسی قابل تحسین ہے ۔اس پر کوئی دورائے نہیں کہ گڈگورننس سے لے کر امن عامہ کی بہتر صورتحال میں پنجاب کو کوئی ثانی نہیں ہے اور اس کا بلاشبہ کریڈٹ انکی میرٹ پر افسران کے چناؤ کرنے کی سوچ کو جاتا ہے۔ماضی میں جو جنوبی پنجاب کرائم کا گڑھ بن چکا تھا اب ایک پرامن علاقے کے طور پر اگر مقبول ہورہا ہے تو میرٹ پر تعینات افسران کی کاوشیں اس میںکار فرما ہیں۔ 33ویں کامن کے پولیس سروس پاکستان سے تعلق رکھنے والے مبشر میکن جیسے بہادر اور نڈر افسران کو دیکھتا ہوں تو برادرم ذوالفقار چیمہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔گزشتہ دو ماہ کے قلیل عرصے میں پورے جنوبی پنجا ب کے لئے خطرہ بنے ہوئے لادی اور پھر زنگلانی گینگ کے خلاف بھرپور کارروائی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اگر حکومت بہتر افسران کا چناؤ کرے تو شاندار نتائج حاصل کئےجاسکتے ہیں۔مبشر میکن کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈیرہ غازی خان تعینات ہوتے ہی جرائم میں تین چوتھائی کمی آنا حیران کن ہے۔لیکن حکومت کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے سول افسران کا تحفظ کرے۔مبشر میکن کا طرز نوکری سول افسران کے لئے عملی نمونہ ہے۔ایسے افسران کو دیکھتا ہوں تواے ۔کے ۔لودھی اور اپنے عبداللہ صاحب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔جو بطور چیف سیکریٹری ریٹائر ہونے کے بعد سیاہی بھی ذاتی قلم سے نکا ل کر دوات میں ڈالی اور سرکاری گاڑی کے بجائے ٹیکسی کرا کر دفتر سے گھر گئے۔ہمسایہ ملک بھارت میں کبھی انڈین سول سروس کے افسران ریٹائر نہیں ہوتے۔ریٹائر منٹ کے بعد بھی آئی اے ایس کے افسران سے کام لیا جاتا ہے۔ افسران کا چناؤ میرٹ پر ضرور ہونا چاہئے مگر حکومت کی طرف سے ارکان اسمبلی کے جائز کاموں کو ترجیح بنیادوں پر کرنے کا بھی حکم دینا چاہئے نہ کہ اپنے ہی ارکان اسمبلی کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے۔
رانا ثنااللہ کی پالیسیوں سے اس عاجز کو لاکھ اختلافات تھے ،ہیں اور رہیں گے ،مگر پارٹی قیادت کا ان کے ساتھ رویہ مناسب نہیں ہے۔حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس سب کا نقصان کسی اور کو نہیں بلکہ ان کی اپنی ذات کو ہوگا۔بالائی پنجاب کی طرح جنوبی پنجاب کی سیاست میں بھی کھچڑی پکی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔لغاری خاندان صوبائی وزارت لینے کا خواہشمند ہے ،اس حوالے سے بھرپور جدوجہد بھی کررہا ہے مگر اپنے ہی خاندان میں انہیں مخالفت کا سامناہے۔جبکہ کھوسہ خاندان کی طرف سے کسی بھی وقت بریکنگ نیوز آسکتی ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ مسلم لیگ ن کو سردار فاروق لغاری مرحوم کی نشست دلانے والے حافظ عبدالکریم اور آزاد حیثیت میں کھوسہ خاندان کو شکست دینے والے علیم شاہ مسلم لیگ ن کی چھتری تلے اتحاد کرچکے ہیں۔راجن پور میں جعفر لغاری،نصراللہ دریشک اور میر بلخ شیر مزاری اتحاد کرکے گورچانی کو راجن پور کی سیاست سے بے دخل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ایسے حالات میں میری معلومات کے مطابق میاں شہباز شریف کے لئے فاروق لغاری مرحوم کے بیٹوں کو وزارت دیناممکن نہیں ہوگا۔بہتر یہی ہوگا کہ تمام ارکان کے جائز مطالبات پورے کئے جائیں اور ان حالات میں کوئی بھی کٹھن فیصلہ کرنے سے گریز کیا جائے۔جنوبی پنجاب سے منتخب رکن قومی اسمبلی جو میاں شہباز شریف کے قریبی دوست بھی ہیں۔ کہنے لگے کہ شہباز شریف جلد ہی صوبائی وزارت اعلی سے مستعفی ہوجائیں گے اور وفاق کا رخ کریں گے۔ان کی بات پر نہ ہی دل مانتا ہے اور نہ ہی دماغ،لیکن جس ذمہ داری سے 70سالہ بزرگ سیاستدان نے کہا کہ مجھے میاں شہباز شریف نے خود یہ بات بتائی ہے تو میں خاموش ہوگیا۔
مفروضوں پر مبنی بہت سی باتیں سامنے آرہی ہیں سیاسی پنچھی اڑان بھرنے کو تیار ہیں۔جوں جوں گرمی کی شدت میں کمی آرہی ہے سیاسی موسم کی حدت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ہر حکمران سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں لیکن اچھے کاموں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چا ہئے ۔مگر سب سے اہم اس وقت یہ ہے کہ اقتدار کے نشے اور لذت میں سیاسی پنچھیوں کو نظر انداز کرنا خطرنا ک ہوسکتا ہے۔ ہمارے قائدین کو اب طرز حکمرانی بدلنا ہوگا۔ورنہ یہ نہ ہوکہ پاکستانی عوام بھی حکمرانوں سے میگنا کارٹا کا مطالبہ کرنے لگیں۔