علی بابا، سندھی ادب کا دوستووسکی

August 18, 2016

علی بابا مرگیا۔ سندھی ادب کا جادوگر بادشاہ ادیب مرگیا۔ وہ جو اپنی تحریروں کے حوالے سے غریب سندھ کا امیر ترین لکھاری تھا۔ لاپروا لابالی خودسر سرکش ادیب۔ علی بابا کی زندگی اور اسکی تخلیقات کو وہی اہمیت ہے جو روسی ادب میں دوستووسکی کی تھی۔ دوستو وسکی کے کرداروں جیسے ذلتوں کے مارے لوگ اسکے کردار تھے اور اسکی بے پروا آزاد اور ایسی ہی دوستووسکی جیسی زندگی۔ بس فرق صرف یہ تھا کہ وہ سندھ میں پیدا ہوا تھا اور اسکا سینٹ پیٹرزبرگ روس میں نہیں حیدرآباد، اسکا جنم شہر کوٹری اور کراچی تھے۔ علی بابا ایک صف اول کا ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور لوک شاعر بھی تھا۔ "اسین مانڑہوں لاڑ جا دریا جے پاچھاڑ جا" ( ہم لاڑ کے رہنے والے لوگ دریا کے آخری سرے پر آباد)۔ اور اسی گیت کی دوسری سطر کی طرح واقعی شمال کی ہوائیں لگتی محسوس ہوتیں جب سندھ کی ام کلثوم لوک گیتوں کی شہزادی زرینہ بلوچ گرہی ہوتیں۔ زرینہ بلوچ ایاز لطیف پلیجو کی ماں اور رسول بخش پلیجو کی اہلیہ تھیں۔ لیکن اسے پورا سندھ جیجی یعنی اپنی ماں کہتا۔
جیسے شیکسپیئر نے کہا تھا آئو زمین پر بیٹھ جائیں اور مرگئے ہوئے بادشاہوں کا ذکر کریں۔ آئو کہ ہم سندھی ادب کے اس بے تاج بادشاہ کا ذکر کریں جو مرگیا۔ جو مرگیا جیسے عظیم ادیب اور آرٹسٹ مرا کرتے ہیں۔
یہ جو بھارتی فلم ’’موہن جو ڈرو‘‘ کی آجکل دھوم مچی ہوئی ہے جو کہ بس بالی وڈ کی فلم ہے جسکا موہن جو دڑو کی تاریخ اور تہذیب کی سچائی اور حقیقت سے کوئی دور کا واسطہ نہیں نہ ہی زیادہ فکشن سے۔ لیکن علی بابا نے تین عشرے قبل جب موہن جودڑو ناول سندھی زبان میں لکھا تھا تو آج بھی ایک فلم کی طرح موہن جو ڈارو کی اسٹوری کھلتی، موہن جو دڑو جیسی دنیا کی عظیم الشان تہذیب اور بڑے شہر کو جڑتے اور پھر زوال پذیر ہونے کی کہانی کھلنے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ناول کا پڑھنے والا پانچ ہزار سالہ اس شہر کا باشندہ ہے۔ بقول امر جلیل یہ دل موہن جو دڑو ہے۔ کاش موہن جو دڑو کی فلم بنانے والا علی بابا کا وہ ناول پڑھ سکتا یا کوئی فلمساز آنے والے کل میں علی بابا کے ا س ناول پر فلم بنائے۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی آئے گا ضرور۔ اسکی فاقہ کشی ایک دن رنگ لائے گی ضرور۔
علی بابا اصل نام علی محمد رند بلوچ حیدرآباد میں پیدا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ وہ پاکستان کے جنم سے کچھ برس پہلے پیدا ہوا ہے اسی لیے وہ اسکا بڑا بھائی ہے۔ اسے پاکستان کو کچھ بھی کہنے کا حق حاصل ہے۔ علی بابا اسکا قلمی نام تھا۔ وہ سندھ کے ان مشہور و معروف محنت کش طبقے کے بلوچ خاندان سے تعلق رکھتا تھا جنہوں نے اپنی محنت سے اپنے اپنے شعبوں میں نام کمائے تھے۔ کمشنر عبداللہ ڈی بلوچ، پی ٹی وی کا مشاق پروڈیوسر ہارون رند اور پی ٹی وی کا جنرل منیجر عبدالکریم بلوچ ترتیب وار اس کے چچا اور چچا زاد بھائی تھے۔ علی کے والد ریلوے میں چھوٹے ملازم تھے۔ علی نے بھی ابتدائی تعلیم کوٹری سے ہی حاصل کی تھی۔ انہوں نے زندگی کی یونیورسٹی سے سب کچھ سیکھا پڑھا تھا۔
علی کوٹری میں پلے بڑھے۔ سندھی کا مایہ ناز ہند میں جلاوطن ادیب موہن کلپنا بھی کوٹری میں پیدا ہوا تھا۔ پلا بڑھا تھا۔ موہن بھی تقسیم کے وقت چودہ سال کی عمر میں کوٹری سے بمبئی اپنے بڑے بھائی کے کنبے کے ساتھ وطن چھوڑ کر بھارت جا آباد ہوا تھا۔ علی بابا کا خیال تھا کہ کوٹری شہر میں بچپن میں کھیلتے کودتے بازار میں دوڑتے وہ جس آدمی سے ٹکرا گيا تھا وہ موہن کلپنا تھا۔ بعد میں دونوں ادیب دوستوں کی ایک دوسرے سے ملنے اور موہن کے سندھ دیکھنے کی خواہش خلش ہی ہو کر رہ گئی۔ نہ علی بابا موہن سے مل سکا اور نہ موہن علی بابا اور کوٹری سے۔
علی بابا کا پہلا افسانہ "پکھی" یعنی "پرندہ" تھا جو اس نے نقل مکانی کرنے والے لوگوں پر لکھا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سندھ میں ون یونٹ مخالف تحریک زوروں پر تھی اور اس میں ادیبوں اور شاعروں کا بڑا کردار تھا۔ حیدرآباد سندھ کا دل اس تمام تحریک کا مرکز تھا اور ادیب تب ون یونٹ مخالف تحریک کا ہراول دستہ تھے۔ حیدرآباد اگلا مورچہ تھا۔ علی بابا جی ایم سید سے ذاتی طور پر متاثر تو تھے اور سندھی قوم پرستانہ جذبات بھی رکھتے تھے جو کہ انسان دوستی پر ہی مبنی تھے لیکن وہ اول اور آخر فنکار شاعر اور ادیب تھا۔ علی کے افسانوں کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ گولی کھاتے ہوئے انسان کی آخری چیخ تھی یا پھر موروں کی۔ میں نے سندھی ادب کا دوسرا افسانہ علی بابا کی کہانی پڑھی تھی جو اس نے تھر کے نگر پارکر، اسکے کارونجھر پہاڑ اور اسکے دامن میں رہنے والے کولہی قبیلے کے انسانوں اور آسمان پر چمکتی گرجتی بجلیوں اور اس پر کارونجھر میں سے پھوٹتی ندیوں ساڑدھرو اور گوڑدھرو کے پس منظر میں لکھی تھی۔ بس تب سے علی بابا نے اپنی تحریروں کے جادو سے میرے جی کو ہمیشہ جکڑ رکھا۔ اس کے دوسرے افسانے "کارونجھر جو قیدی"، "رنی کوٹ کے رکھوالے"، کجلے تجلے لوگ سو روپے کا نوٹ اور آدمی سمیت اس کے کئی شاہکار افسانے ہیں۔ علی بابا نے سندھی پبلشر اور مدیر کو سکھلایا کہ کہانی لکھوانے کے پیسے بھی ہوتے ہیں جو اسے ادا کرنے ہیں۔
علی بابا ٹی وی ڈراموں کا شاہ لکھاری تھا۔ لیکن اس نے ڈرامے سندھی میں لکھے۔ انیس سو ستر کی دہائی میں اسکے ایک ٹی وی ڈرامے کو اسوقت عالمی شہرت ملی جب اس نے میونخ کے عالمی میلے میں اعزاز حاصل کیا۔ شاید کہ تیسرا ایوارڈ۔ یہ ہارون رند کی پیشکش میں ایاز عالم ابڑو کے کمیرائی کام میں علی بابا کا ڈرامہ "دنگي منجھ دریا" (کشتی بیچ دریا) کو ہی ملا تھا۔ زرینہ بلوچ نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ حال ہی میں ملک کے معروف لکھاری اور ٹی وی ڈرامہ نگار عبدالقادر جونیجو نے علی بابا پر اپنے ایک کالم میں اعتراف کیا ہے کہ یہ علی بابا ہی تھاجس نے اسے ٹی وی ڈرامہ لکھنا سکھلایا تھا۔ اس نے اسے یہ بھی سکھایا تھا کہ کس طرح کاغذ قلم پکڑ کر ڈرامہ لکھا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑے لکھاری کا اپنے ہمعصر بڑے لکھاری اور دوست کے بارے میں اعتراف ہے۔
علی بابا کی روزی روٹی اوڑھنا بچھونا قلم ہی تھا۔ کوئی اور روزگار نہیں تھا بلکہ وہ زمانہ روزگار لکھاری تھا۔ سدا کا سیلانی۔ لاابالی، سچا جیسے انیسویں صدی کے یورپ میں فنکار اور ادیب ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہ یورپ نہیں پیارے پاکستان میں سندھ تھا۔ جہاں علی بابا جیسا ادیب سڑک پر رہا۔ انتہائی خوددار ادیب۔ ہ کبھی کینجھر جھیل پر جھپڑ میں دیکھا جاتا تو کبھی اس کا پتہکاروجھر پہاڑکے دامن کے پارک میں ملتا کبھی دادو تو کبھی کارـچی بور جامشورو یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں۔ پڑھے لکھےنوجوان سندھ میں علی بابا سے پیار کیا کرتے وہ انکے گائوں شہر اور گھروں میں مہینوں اور سالوں تک ٹکا رہتا۔ کبھی تن تنہا سندھ کے صحرا کی راہ لیتا۔اس کی ایک ناقابل فراموش کہانی :مدر گاڈیس :ہے جس میں ایک دیسی گائیڈ کا ایک یورپی سیاح خاتون سے رومانس ہوجاتا ہے اور پیار کرتے ہوئے جب وہ اسے ’’تم یورپی کتنے نا وحشی ہو!‘‘ کا طعنہ دیتا ہے تو یورپی خاتون سیاح ایک جست لگا\ کر بپھرتی ہوئی اسے کہتی ہے ’’تیس لاکھ لوگوں کو قتل کرنے اور دو لاکھ عورتوں سے زیادتی کرنے اور ایک کروڑ لوگوں کو جلاوطن کرنے کے بعد ہمیں کہتے ہو کہ ہم لوگ وحشی ہیں؟" علی بابا بہرحال ایک باغی بےچین روح اور لکھاری تھا۔ اسکے کئی افسانے امن عالم اورنیوکلیئرخطرے پر بھی ہیں۔ زندہ باد علی!


.