محیّرالعقول فیصلے

August 16, 2014

کوئی مانے یا نہ مانے عمران خان اور طاہر القادری دونوں محّیر العقول فیصلے کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں ۔ عمران خان نے 1996کے الیکشن میںحصہ لے کر ایک محیّر العقول فیصلہ کیا تھا،گو میں عمران خان سے ملے بغیر ان کاحمایتی تھا مگر میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا تحریک انصاف وہ طالبعلم ہے جو بغیرسبق یادکئے کمرہ امتحان میں داخل ہو گیا ہے ۔عمران کے پیشِ نظر 1970کا الیکشن تھاجس میں پیپلز پارٹی کومحّیرالعقول اورغیر متوقع کامیابی ملی تھی ۔عمران کا خیال تھا کہ کرکٹ کا ورلڈ کپ،شوکت خانم اسپتال کی تعمیر،شہرت یافتہ ہینڈسم شخصیت ،الیکشن میںبھٹووالی کامیابی کے لئے معاون ہونگے۔مانا مگروقت اور حالات کا فرق تھا۔ پھر بھٹو کی وجہ شہرت سیاست تھی عمران کی کرکٹ۔ میں ان دنوں اقبال ٹائون کے کامران بلاک میں رہتا تھا اور ویلفیئر سوسائٹی کا سرگرم عہدیدار تھا ۔ حامدخان ایڈووکیٹ میرے علاقے میں تحریک کے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے پوری کوشش کے باوجود چند ووٹروں کو ساتھ لا سکا ۔1985کے بعد لوگ پیپلز پارٹی کی حمایت اورمخالف جنون کے زیر اثر تھے ۔ نوازشریف بحیثیت وزیر اعلی ٰاینٹی پیپلز پارٹی عوامل کو لیڈ کرتے تھے۔ انہیں جنرل ضیاء،اور اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل تھی ۔ان طاقتور عوامل کی موجودگی میں عمران خان نہ عوام کواورنہ ہی طاقتور حلقوں کو متاثر کرسکے۔عمران خان کے سیاست میں اچانک کودنے سے بعض مخالفین ان سے ناراض بھی ہو گئے اور ان کی کردار کشی شروع کر دی گئی جو آج تک جاری ہے۔ مخالفین نے1970 میںبھٹو کی بھی کردارکشی کی اور 1977میں تو حدہی کر دی گئی۔ تاریخ میں جھانکئے، ہر نئی تحریک پسے ہوئے طبقات کے حقوق کیلئے ہی وجود میں آتی ہے۔ وسائل اور اقتدار پرقابضین مدافعت کرتے ہیں اور تبدیلی کے مدعی کی کردار کشی بھی ۔ پاکستان کی تاریخ میں بھٹو، الطاف، عمران سیاسی جدوجہد کی پیداوار ہیں باقی سب کسی نہ کسی کے بلاول ہیں ۔ بھٹو بھی ایوب خان کی چھڑی کے سہارے سامنے آئے تھے مگر بعد میں سیاسی جدوجہد کا حصہ بھی بنے ۔ طاہر القادری نے جدوجہد سے ہی زندگی کی کشتی کا رُخ موڑا مگر انہوںنے سیاست اور دولت دونوں کیلئے مذہب کا آسان استعمال کیا۔ اس سے قبل کئی مذہبی رہنما یہ نسخہ استعمال کر چکے ہیں ۔ مذہب، قومیت، زبان کی بنیاد پر پریشر گروپ تو وجود میں لائے جاسکتے ہیں قومی سیاسی پارٹیاں نہیں ۔ قومی مسائل پر بننے والی پارٹیاں ہی قومی بنتی ہیں جماعت اسلامی کی عمر پاکستان سے زیادہ ہےاسے پریشر گروپ سے زیادہ حیثیت نہیں ملی ۔ قادری صاحب کا بھی یہی مستقبل ہے۔ وہ لاکھ نام بدلیں عوامی پارٹی کے نام پر سیاست کریں ان کی بنیاد منہاج القرآن ہے۔ وہی رہے گی۔ جھنگ کے ایک غریب نوجوان نے مذہب کے نام سے ہی سہی منہاج القرآن نامی درسگاہ اور سرمائے کا گرانقدر نیٹ ورک قائم کر دیا۔ تو یہ یقینا ایک محیّرالعقول کارنامہ ہے۔ ٹیکسوں کے نوٹس اورمقدمات اسے مٹانہیں سکیں گے ۔ میں کوئی پیشن گوئی نہیں کر رہا تاریخی حقیقت لکھ رہا ہوں۔ محدود سوچ یا ایشو پر سیاست کرنیوالے میدان میں تو رہتے ہیں مگر قومی لیڈر نہیں بن پاتے۔ایم کیو ایم مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد مہاجر کے نام سے رکھی گئی تھی اور اردو زبان کو استعمال کیا گیا یہی وجہ ہے کہ 35سالوں سے وہ حیدر آباد سے آگے نہیں نکل سکی ۔ باچا خان کو نیشنل عوامی پارٹی والے لاکھ بڑا لیڈر کہیں انہوں نے ایک صوبہ کے پختونوں کے نام سے سیاست کی تھی پختونوں سے آگے نہ وہ خودبڑھ سکے نہ انکے بیٹے ولی خان اور نہ پوتے اسفند یارولی۔ بلوچستان کے مینگل بگٹی، مری ،بزنجو نے پارٹیا ں بنارکھی ہیں مگر قبیلوں تک محدود ہیں ان کا وژن اور بنیاد وہیں تک تھی۔ بھارت میں بھی اس طرح کی پارٹیاں یا پریشر گروپ ہیں ۔ کانگرس کے بعد بی جے پی عوامی حقوق کے نام پر وجود میں آئی اوراب عام آدمی پارٹی۔ عمران خان کا محّیر العقول فیصلہ خیبر پختونخوا کی حکومت سازی بھی ہے ۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی کی 99 میںسے انہیں 35سیٹیں ملی تھیں ۔ پچاس فیصد نہیں تھیں، اخلاقی طور پر حکومت بنا نا ان کافرض نہ تھا ،جبکہ ان کے ایک سپورٹر اورنامور صحافی ایک چینل پر انکشاف کر چکے تھے الیکشن انجنیئرڈ ہونگے مرکز اور پنجاب مسلم لیگ (ن) سندھ پیپلز پارٹی ایم کیوایم ،بلوچستان مخلوط اور خیبرپختونخواہ تحریک انصاف۔ مذکورہ صحافی نے بنفس نفیس انہیں حکومت بنانے سے منع کیا میں نے بھی اس وقت اپنے ایک اخباری کالم میں یہ لکھا اور حسن نثار نے جنگ میں کہ عمران کو دلدل میں پھنسایاجا رہا ہے مگر وہ نہ مانے۔2001کے بعد سے خیبر پختونخوا کی حکومت پنجاب کی طرح پھولوں کی سیج نہیں رہی ۔ جس خودکُش حملہ آور کوآگے کا راستہ نہیں ملتا وہ خیبر پختونخوا میں خود کوہلکا کر لیتا ۔ فاٹا میں فوج با اختیار ہے یا پھرگورنر ،صوبائی حکومت کو تووہاں رسائی ہی نہیں ،گورنر مرکز کا نمائندہ ہے ۔ حکومت بنانے کا فیصلہ محیّرالعقول تھا مگر فہم ادراک کے معیار کے مطابق نہیںتھا۔ بلا مقصد خود کواحتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر لیا جو انرجی انہوں نے خیبر پختونخوا کی حکومت پر ضائع کی اسے وہ ایک مضبوط اپوزیشن لیڈربننےکے لئےاستعمال کرتےتو یہ ان کے لئےبہترہوتا۔ اندرون سندھ کراچی بلوچستان پر بھی توجہ دینے کیلئے وقت ملتا کارکردگی میں بھی بہتری آتی۔ 2013کے الیکشن کی شفافیت کے دعویدار تومرکزصوبوں کے حکمران بھی نہیں ،سب ایک دوسرے پر دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں، مڈٹرم الیکشن متوقع تھے ۔خیر جو ہوا سوہوا۔ اس وقت اپوزیشن نے مرکز اور پنجاب کوہلا کر رکھ دیا ہے ۔عمران پر الزام ہے کہ سال گزرنے اورصوبے میں حکومت سازی کے بعد ایسا کیوں ۔عمران کا موقف ہے کہ ایک سال انہوں نے آئینی، قانونی جدوجہد کی ،نہ اسے الیکشن کمیشن سے ریلیف ملا نہ عدالتوں سے انصاف ۔عمران کا الزام ہے دھاندلی ہوئی ہے،مرکز اورپنجاب کہتا ہے ہاں دھاندلی ہوئی ہے مگر خیبر پختونخوا میں ہوئی ہے اور تحریک انصاف نے کی۔ توپھر آپ عمران کے موقف کی تائید کرتے ہیں ۔ بات دھاندلی کی ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ کس نے کی ہے چیف الیکشن کمشنرکابیان ریکارڈپرہے جو دھاندلی دھاندلی کہہ رہے ہیں اگر تفتیش ہوئی توان کے پاس جو ہے وہ بھی نہیں رہے گا۔یہ بیان بھی دھاندلی کا تائیدی ہے ۔ پھر الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے پاس الیکشن کی شفافیت کے دفاع کا کیا جوازرہ جاتا ہے ۔ اگر جمہوریت ہو؟ جمہوریت کا حُسن ہے لوگوں کو آئینی اداروں سے ریلیف مل جا تا ہے انہیں مارچ کیلئے آواز نہیںدینا پڑتی ۔عمران اور قادری کی آوازنے حکومت کوہلا کر رکھ دیا ہے شفاف الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو پٹرول گیس بند کرنے کی ضرورت نہیں پڑنا چاہئے تھی ۔ یہ ایسی غلطی ہے جس کی معافی مانگنا پڑے گی ۔ایک بیریئرکے لئے 14انسانوں کا قتل اور بیریئر وہیں۔ قادری صاحب کی آمد اور جامد کو پیپلز پارٹی کی طرح ڈیل کرتے تو کچھ بھی نہ ہوتا مگر شایدحکومت کا مقصدانہیں لیڈر بنا نا تھا تاکہ پنجاب میں عمران کے حامیوں کو تقسیم کیا جا سکے ۔ میرا وجدان ہے جب بھی الیکشن ہوئے قادری اور عمران الگ الگ پچ پر کھیلیں گے۔ قادری کی سیاسی شخصیت واضح نہیں ،کوئی تجزیہ ،تبصرہ ممکن نہیں ۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مارچ عوام کے مفاد میں نہیں خاموشی بھی عوام کے مفاد میں نہیں۔ حکمرانوں، اپوزیشن میں کالی بلٹ پروف گاڑیوں کی نمائش کی مسابقت ہے اور عوام خود کُشیوں پر مجبور۔ یہ ہے وہ معاشرتی تضاد جو انقلاب کا متقاضی ہے مگرلائے گا کون ۔سوال؟