جمہوری ادارے مستحکم کریں

September 06, 2014

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں جب عام انتخابات کرانے کا اعلان کیاتو اس وقت اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں بکھری ہوئی تھیں اور دور دور تک ان کے اکٹھا ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ رائو عبدالرشید وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے اور ان کی جانب سے جو رپورٹ دی گئی تھی اس میں دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا گیا تھا کہ اصغر خان اور نوابزادہ نصراللہ خان کا ’’سیاسی ملاپ‘‘ ناممکن ہے اور ظاہراً یہ درست بھی تھا کہ نوابزادہ صاحب اور ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خانے کے سیاسی راستے جدا ہو چکے تھے۔ رائو رپورٹ میں اپوزیشن کے انتخابی اتحاد کو مسترد کر دیا گیا تھا لیکن 7؍ مارچ 1977ء کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے فوراً بعد اپوزیشن کی نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کے نام سے انتخابی اتحاد قائم کر دیا گیا۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا مفتی محمود صدر اور جمعیت علماء پاکستان کے رفیق باجوہ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ مرحوم رفیق باجوہ صاحب ایک شعلہ بیان مقرر تھے لیکن بعد میں وہ نہ جانے کیوں پٹڑی سے اتر گئے اور قومی اتحاد کی ’’عوام تحریک‘‘ میں بہہ گئے ان کے بعد جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔ حکمران پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان بڑے زور کا انتخابی معرکہ ہوا۔ ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان قومی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ کراچی میں ان کا ایسا فقید المثال استقبال ہوا کہ اس کی مثال نہیں ملتی کہا گیا کہ ’’سارا شہر سڑکوں پر اُمڈ آیا۔‘‘ عوام میں بڑا جوش و خروش تھا۔ دونوں جانب سے بہت بڑے بڑے انتخابی جلسے اور جلوس نکالے گئے۔ لیکن نہ جانے کیوں وزیراعظم کو ان کے نادان مشیروں نے ’’بلامقابلہ منتخب‘‘ ہونے کی ترغیب دی۔ اس طرح لاڑکانہ سے جناب بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کو بلا مقابلہ منتخب کرایا گیا جبکہ جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی ان کے مدمقابل امیدوار تھے انہیں کاغذات نامزدگی داخل کرانے سے جبراً روکا گیا۔ مولانا عباسی جماعت اسلامی کے نائب امیر اور انتہائی قابل احترام شخصیت تھے۔ اس طرح چند اور ایسے اقدامات ہوئے جس سے انتخابات کو مشکوک بنایا گیا اور جب ایسا ہو تو انتخابی ماحول مکدر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی کے انتخاب کو مسترد کر کے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا جو تین دن بعد 10جنوری کو منعقد ہونے تھے۔ ایسا بائیکاٹ ہوا کہ پولنگ والے دن پولنگ سٹیشن ویران ہوگئے اور قومی اتحاد نے ووٹ کے تقدس کے لئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ اس تحریک کے دوران کیا کچھ ہوا یہ ایک الگ کہی ان کہی داستان ہے لیکن بعد کے حالات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر جناب بھٹو کے دائیں بائیں مشیر الیکشن میں دھاندلی نہ کرواتے تب بھی بھٹو صاحب الیکشن میں کامیاب ہو جاتے۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر تیزی سے رواں دواں ہوتا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وہ پہلے ’’عوامی قائد‘‘ تھے جنہوں نے عام آدمی میں نہ صرف سیاسی شعور پیدا کیا بلکہ سیاسی کارکنوں کی ایک کھیپ بھی پیدا کی جسے سیاست میں ’’جیالوں‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ وہ پہلے لیڈر تھے جو عوام میں آ گئے ایک ایک دن میں اٹھارہ اٹھارہ جلسوں سے خطاب کیا اور اس وقت ملک میں موجود بڑی بڑی سیاسی جماعتوں اور قد آور سیاسی شخصیتوں سے مقابلے میں ایک سیاسی جماعت بنائی اور ان کے مد مقابل آ گئے۔ وہ جمہوری شعور جو بھٹو صاحب نے دیا تھا وہ اسے مضبوط اور مستحکم نہ کر سکے اور بعد میں ایسی سازشوں کا شکار ہوئے کہ تختہ دار تک جا پہنچے تاہم اسے جمہوریت اور جمہوری اداروں کے لئے ایک بڑی قربانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جناب بھٹو کے بعد ملک ایک بار نہیں دو بار طویل مارشل لائوں کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ جب ضیاء الحق 9سال حکمران رہے اور آئین میں 58-2Bکے عنوان سے ایک ایسی آٹھویں ترمیم کر دی جس سے اختیارات کا مرکز صدر کی ذات بن گئی۔ جنرل ضیاء الحق طیارہ کے ایک اندوہناک حادثہ میں دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے الیکشن تو کرائے مگر اقتدار کا ’’طوطا‘‘ ان کے ہاتھ میں تھا اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دو دو بار وزیراعظم بنے لیکن انہیں آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور نہ ہی الیکشن ’’صاف و شفاف‘‘ کرائے گئے تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک میں جمہوریت کسی نہ کسی صورت قائم رہی اور جب اس پر ’’شب خون‘‘ مارا گیا تو بڑے زور سے بحالی جمہوریت کی تحریک نہ صرف چلی بلکہ کامیاب بھی ہوئی اور اس میں سیاسی جماعتوں ہی نہیں کارکنوں نے قربانیاں بھی دیں۔ ضیاء الحق دورمیں تو سیاسی جماعتوں نے ایم آر ڈی کے نام سے سیاسی اتحاد بھی قائم کیا جبکہ مسلم لیگ جماعت اسلامی ان سیاسی جماعتوں میں شامل تھیں جنہوں نے 1985ء کے غیر جماعتی ضیاء انتخابات میں حصہ لیا۔ اس وقت ایم آر ڈی نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا اور ضیاء دور کی حکومت کے خلاف تحریک بھی چلائی اور یہ تحریک کسی نہ کسی صورت آج بھی جاری ہے اور عوام میں سیاسی شعور کی جو شمع جناب بھٹو نے روشن کی تھی اس طرح قائم اور دائم ہے۔ ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوری اداروں کے استحکام پر ایک نکتہ پر متفق ہو جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے ہی ملک تعمیر و ترقی کی پٹڑی پر نہ صرف چڑھ جائے گا بلکہ رواں دواں بھی ہو گا۔