دو قانون دو نظام

September 18, 2014

یہاں ممی ڈیڈی انقلابیوں اور نوجوان سرویچ پیرزادو کیلئے دو مختلف قوانین تھے۔ ممی ڈیڈی انقلابی جنھوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا ہے جو کہتے ہیں کہ ’’دیکھو نہ ! پولیس اگر ہمیں مارے گی تو انقلاب کیسے لائیں گے!‘‘ جو چاہے حسن کرشمہ ساز کرے پورے اسلام آباد کو سر پراٹھالیں۔ مگر پھر بھی سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہیں ۔ چاہے کینیڈین کنٹینر بند انقلابی پیچھے ہوں اور پولیس ان کے آگے... لیکن سندھی نوجوان قوم پرست کارکن سرویچ پیرزادو کو اجل کے سادہ لباس ڈبل کیبن از غیبی گھوڑے سوار کراچی سے اٹھاکر لے گئے ہیں۔ تاہنوز نوجوان سرویچ پیرزادو کا اس کے اہل خانہ کو اس کے مقام پتہ کا کچھ معلوم نہیں۔ نہ اس کا جرم ۔ سرویچ پیرزادو بھی ان سینکڑوں بلوچ اور سندھی نوجوانوں میں شامل ہے جو غائب کردئیے گئے ہیں۔ اگر ان پر کوئی مبینہ جرائم کے الزامات ہیں تو ان کو کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا ۔ ریاستی اغواکار خود منصف اور خود ہی عدالت بن کر ان میں سے کئی کو ماورائے عدالت سزا دیتے ہیں۔ مسخ شدہ اور جلی ہوئی ان کی لاشیں بھیجی جاتی ہیں۔ نوجوان سرویچ پیرزادو کے گھروالوں اور رشتہ داروں کو بھی سرویچ کے بارے میں یہی خدشہ ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر سرویچ کسی جرم کا مبینہ مرتکب ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اس کی گرفتاری اور نظربندی کا مقام ظاہر کیا جائے۔ سرویچ پیرزادو کا والد اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کا یاد حافظ لطف پیرزادو ،یہ عاشق سیلانی مسافر سرویچ کو ڈھونڈھنے کہاں جائے! سرویچ پیرزادو ممی ڈیڈی کلاس کا نوجوان نہیں۔
انقلاب اور آزادی کے نعرے کی عیاشی مملکت خداداد میں سندھی اور بلوچ نہیں کرسکتا۔ اسی لئے سندھی اور بلوچ نہ اس دھرنے میں شامل ہے اور نہ ہی سندھی اور بلوچ کے مصائب و مسائل کا بھی کوئی تذکرہ ہے۔ نہ ان کے ساحل و وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا کوئی ذکر۔ بلکہ ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی یہ کہ مزید صوبے بنائے جانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ سندھی اپنے صوبے کو محض ایک انتظامی یونٹ نہیں سمجھتے ۔ وہ اسے مادر وطن کا درجہ دیتے ہیں۔ ایسے بھی سندھی اور بلوچ ہیں جو اسلام آباد سے اب تک انیس سو چالیس کی قرارداد کے مطابق اپنے صوبائی حقوق کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے درد کا مداوا نئے پاکستان میں ہوگا کہ نہیں۔
مجھ سے کوئی کہہ رہا تھا کہ مدبر بلوچ رہنما غوث بخش بزنجو کو جوانی میں سو روپے کے نوٹ پر ’’ون یونٹ توڑدو‘‘ لکھنے پر چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر اس کے بانی کی تصویر کے ساتھ قادری کے عقیدت مندوں کی طرف سے نعرے لکھنے پر قانون دوسرا۔ بلوچوں کیلئے قانون بدلے ہی نہیں۔ بات درحقیقت یہ ہے کہ بلوچوں اور سندھیوں کیلئے اس ملک میں کوئی قانون ہے ہی نہیں۔ کیا گمشدگیاں کسی مہذب ریاست کا تصور پیش کرتی ہیں؟ ملک کے بانی نے کہا تھا کہ کسی بھی شخص کو کسی عدالت قانون میں پیش کئے بغیر ایک سیکنڈ کیلئے بھی نظربند نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن اس کی جگہ اب تحفظ پاکستان آرڈیننس۔ ایسے ظالمانہ قوانین سے پاکستان کا تحفظ نہیں ہوگا۔ یہی بات کئی عشرے قبل سابق مغربی پاکستان اسمبلی میں میاں افتخارالدین نے کہی تھی۔ یہی ستمبر انیس سو پچپن میں ون یونٹ بل لانے کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ مرکز کا مطلب ہے اتحاد نہ کہ نفاق۔ یہی تمہارا مضبوط پاکستان، پاکستان کو کمزور کردے گا۔ اب پھر صوبوں کی بات ہورہی ہے۔ سندھ کے حصے بخرے کرنے کی بات ہورہی ہے۔ نئے پاکستان میں سندھی اور بلوچ(ایسے بیگانے ہیں جیسے سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی بیگانے ہوتے تھے)۔ اس پوری آزادی اور انقلاب کے چوروں کی بارات میں سندھی بلوچ بیگانے عبد اللہ دیوانے ہیں۔ ان کیلئے نواز شریف آئے تو کیا جائے تو کیا۔ ان کے نوجوان غائب کر کر قتل کردئیے جاتے رہے ہیں۔ پھر حکومت زرداری کی تھی کہ اب نواز شریف کی کہ کل عمران خان ٹینکوں پر چڑہ کر آئے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ گلو مری سے لیکر گلو بٹ تک سندھیوں کے شب و روز ایک سے ہیں (گلو مری سانگھڑ کا ڈاکو تھا جس نے انیس سو نوے کے انتخابات میں تب کے وزیراعلی جام صادق علی کے حق میں پولیس کی وردی پہن کر ٹھپے لگائے تھے۔ انیس سو نوے کے انتخابات میں دھاندھلیاں ایک مانی ہوئی مسلمہ حقیقت تھی لیکن اسکی کوئی بھولے سے بات بھی نہیں کرتا۔ جو انتخابات چرائے گئے لوٹے گئے۔ یہی خورشید محمود قصوری تب اس وقت کی حزب مخالف پاکستان ڈیموکریٹک الائنس یا پی ڈی اے کی طرف سے کچا چٹھا یا قرطاس ابیض جاری کیا گیا تھی کہ کس طرح بینظیر بھٹو کی پی پی پی (آج کی وڈیروں والی پی پی پی نہیں جو سندھ تک محدود رہ گئی ہے) کو ہرایا گيا تھا۔ اسی دستاویز کا عنوان تھا’’انتخابات کیسے چرائے گئے۔’’ان چرائے گئے انتخابات کے دوران اور قبل ازانتخابات کی دھاندلیوں کی بات کوئی نہیں کرتا۔ یہ بھی نہیں کہ کس طرح غلام اسحٰق خان کے تحت جمہوریت کے خلاف اسلام آباد میں ایک جنرل کی سربراہی میں ایک خفیہ انتخابی سیل بنایا گیا تھا، اس ملک کی تاریخ شروع ہی انتخابی دھاندلیوں سے ہوتی ہے جب جی ایم سید کے خلاف مسلم لیگی امیدوار قاضی محمد اکبر کے حق میں دھاندلی کرائی گئی تھی۔ انیس سو اڑاتیس میں ایک انتخابی عذرداری میں انتخابات کا لعدم قرار دئیے گئے اور پیر الٰہی بخش کو اپنی وزرات سے ہاتھ دھونا پڑ گئے تھے۔
لیکن جہاں قرارداد پاکستان کی اصل دستاویز بھی ملک کے گمشدہ شہریوں کی طرح غائب کردی جائے وہاں ایک انارکی کا کوئی حد حساب نہیں ہوتا۔ پیارا پاکستان آج کل اس کے مکمل غلبے میں ہے۔ پچھلے دن طیاروں میں کسی ٹکٹ یافتہ مسافر کو جہاز سے اتارنے کا حق ساتھی مسافروں کو حاصل ہوچکا ہے۔
اب وہ یہ فیصلہ ایک طرح سے فضائی عملے کو یرغمال بناکر کرتے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں ملک رحمٰن اور پی ایم ایل (ن )کے اقلیتی ایم این اے رمیش کمار کے ساتھ ہوا یہ سب کچھ دھرنا کلچر کا شاخسانہ ہے۔ ایک دھرنا بلوچوں اور سندھیوں کو بھی پر امن طور اسلام آباد کی ریڈ زون میں کرنے دیجئے۔ دادو کی دکھوں کی ماری ہوئی لڑکی اور اس کے والدین کے ساتھ اسلام آباد پولیس نے کچھ عرصہ قبل جو گسٹاپو گردی کی تھی وہ دھرنا گردی والوں کے ساتھ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔سندھیوں اور بلوچوں کیلئے قانون اور باقی ماندہ ملک کیلئے گویا شاید قانون اور ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دھرنا گردی والے مجموعے بمع اپنے لیڈروں کے دھرنے ملتوی کر کر پنجاب کے ان شہری اور دیہی علااقوں میں متاثر لوگوں کی مدد کو پھیل جاتے جہاں جہاں سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ لوگ ہیں کہ خس خاشاک زمانوں کی طرح اپنے مال متاع، مویشیوں اور پیاروں کے ساتھ بہتے چلے جاررہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مہذب معاشروں کے حکمرانوں و رہنمائوں کیلئے چلو بھر پانی کافی ہوتا ہے۔