دھرنوں کی طوالت کا جنجال

September 18, 2014

ایک احتجاج۔11؍ستمبر کے جنگ میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن سائوتھ زون کراچی کی جانب سے ایک 14سالہ بچی کے اغوا ہونے کی تلاش کا اشتہار تصویر کے ساتھ شائع ہوا ہے اس میں یہ الفاظ بھی درج ہیں ’’جس کو زنا کے لئے اغوا کیا گیا‘‘۔ ان الفاظ سے معصوم بچی کا کردار داغ دار ہوجاتا ہے۔ اغوا خود ایک گھنائونا جرم ہے، پولیس کو اس معاملے میں احتیاط برتنی چاہئے ۔
دھرنوں کے سلسلے میں کسی فریق کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ معاملہ اتنا طول کھینچ لے گا۔ دھڑن سازوں کا پروگرام تھا کہ چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح تین دن میں معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا اسی لئے انہوں نے اپنے حمایتوں کو ہدایت کی تھی کہ تین دن کے لئے خشک راشن ساتھ لائیں پانی اسلام آباد میں مل جائے گا، حکومت کو امید تھی کہ چند دن میں لوگ گھبرا کر اپنے اپنے گھر چلے جائیں گے، اسلام آباد والوں کا خیال تھا کہ ہم ایک محفوظ قلعے میں بیٹھے ہیں یہاں کون آسکتا ہے، مگر الٹی ہوگئیں سب تدبیریں،نہ کچھ احتیاطوں نے کام کیا۔
ایک زمانے میں ہمارے ہاں نوعمر لڑکے جز وقتی کام کرتے تھے، وہ کبھی آدھے یا پورے دن کی چھٹی مانگتے، بی بی پوچھتیں کہ کیا کام ہے وہ کہتے کہ فلاں پارٹی یا فلاں صاحب کا جلسہ یا جلوس ہے وہاں ان کے نام کے نعرے لگانا ہے، دو چار روپے مل جائیں گے۔ اب مہنگائی کا زمانہ ہے، دروغ برگردن راوی بے روزگار نوجوانوں، فٹ پاتھوں پر بیٹھے کدال، پھاوڑہ لئے روزانہ دیہاڑی کے متلاشی افراد کو تین دن کے لئے ہزار بارہ سو روپے پر بھرتی کرلیا گیا۔ لیکن بھرتی کرنے والوں نے خلیجی ممالک کے ہوشیار سرمایہ داروں کی طرح ان کے پاسپورٹوں پر قبضہ کرلیا اسی طرح یہاں کھانا تقسیم کرنے کے بہانے ان کے شناختی کارڈوں پر قبضہ جمالیا اب یہ لوگ بریانیاں کھا رہے ہیں، بھنگڑے ڈال رہے۔ پارٹی کے جھنڈے لہرا رہے اور زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے جو بھی مل جاتا ہے اس پر صبر و شکر کرنے پر مجبور ہیں، مگر حیرت ہوتی ہے کہ خواتین چولہا چکی چھوڑ کر سرشام ننھے ننھے بچوں کو لے کر جلسوں کی رونقیں بڑھاتی ہیں، کچھ کے روزینے مقرر ہیں، پڑھی لکھی اور ڈگری یافتہ وزیر مشیر، سیکرٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور تحصیل دار بننے یا کسی بیرونی ملک میں سفیر بننے کے خوشگوار خواب دیکھ رہی ہیں۔البتہ سنجیدہ اصحاب یہ سوچتے ہیں کہ کنٹینروں، ،خیموں، قناتوں، کرسیوں، کھانوں پر جو ہر روز ہزاروں روپے صرف ہورہے ہیں کیا ان کو علی بابا کا کھل جا سم سم کا خزانہ مل گیا ہے الٰہ دین کا چراغ ان کے قبضے میں آگیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دھرنے والوں کے جملہ مطالبات (ماسوا ایک کے) تسلیم کرلئے گئے ہیں، اب تک راج ہٹ، تریاہٹ، بالک ہٹ مشہور تھی، اب لغت میں ’’سیاست داں کی ہٹ‘‘ کا اضافہ کرلیا جائے۔
دھرنے والوں کے پاس دو مواقع ایسے آئے جب وہ کسی شرمندگی کے بجائے عزت سے واپس ہوسکتے تھے، پہلا موقع چینی صدر کی آمدکا وقت تھا اوردوسرا ملک کی سیلابی کیفیت،وہ تو ہفتہ13؍ستمبر کو ایک ماہ کی تکمیل پر جشن منانے کے خواہاں تھے، جس کا اعلان بھی کردیا تھا، غالباً بھلے مانس نے کان میں یہ کہہ دیا کہ اس کے تحریک پر بڑے منفی اثرات پڑیں گے اس لئے یہ جشن منسوخ کردیا گیا۔اس وقت ملک سیلابی ریلوں میں گھرا ہوا ہے، کتنا نقصان ہوا یہ تو ابھی بتایا نہیں جاسکتا ہے کیونکہ سیلابی ریلے ابھی سندھ سے گزر رہے ہیں، لیکن پنجاب میں انہوں نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ کچھ کم نہیں۔ حافظ آباد، جھنگ، مظفر گڑھ وغیرہ کو بچانے کے لئے بہت سے بند توڑ دئیے گئے ہیں۔ اب تک چار لاکھ دیہات زیر آب آچکے ہیں، 3لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں، ان کے پاس رہنے کا ٹھکانہ نہیں۔ ان کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، ان کے مویشی بہہ گئے ہیں، ان کے عزیز و اقارب سیلاب کا نشانہ بن چکے ہیں، سب سے بڑی چیز ان کو خوراک اور صاف پانی کی ضرورت ہے، ان کے علاقوں سے سیلابی پانی کی نکاسی اہم ہے تاکہ وہ سرما سے پہلے اپنے ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں جاسکیں۔ ان کی بحالی پر کتنی رقم صرف ہوگی فی الحال اس کا بھی اندازہ نہیں اور حکومت پاکستان کے اس قدر وسائل نہیں، امداد کی دو صورتیں ہیں ملک کے صاحب ثروت اصحاب ان کی دل کھول کر مدد کریں، اس وقت امدادی سرگرمیوں میں فوج پیش پیش ہے، دوسرے بیرونی دوستوں سے امداد کی اپیل کی جائے، دو چار خصوصی دوستوں کے علاوہ اس ذیل میں بھی زیادہ کامیابی کی توقع رکھنا خیالی پلائو پکانے کے مترادف ہوگا۔
دراصل ہمارے پاس ایک ایسا ریزرو فنڈ ہونا چاہئے، جس سے ایسے نازک اوقات میں مدد لی جاسکے۔ دھرنے والوں کو اپنے جوش و خروش میں یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے دھرنوں سے ملک کی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچ چکا ہے اور اس کا ازالہ ایک آدھ سال میں نہیں ہوسکتا، اس وقت تو یہ فکر ہونا چاہئے کہ اس سال اس قدر گندم اور چاول کی پیداوار حاصل ہوسکے گی جس سے ہماری غذائی ضروریات پوری ہوسکیں اور ہمیں غلہ باہر سے نہ منگوانا پڑے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ ایک طرف آپ پیٹ بھروں کو بریانیاں کھلائیں اور دوسری طرف ننھے ننھے بچے اور بوڑھے بھوک سے ہلاکت کے قریب پہنچ رہے ہوں۔
اب بھی موقع ہے کہ عیدالاضحٰی سے پہلے یہ دھرنے ختم کردئیے جائیں، مذاکراتی عمل سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا یہ فیصلہ تو خان صاحب اور مولانا صاحب ہی کو کرنا ہے۔ ایک خطرے کی اطلاع یہ ہے کہ دھرنوں میں 6-5 دہشت گرد پہنچ چکے ہیں۔ ان کو نظرانداز کرنا فاش غلطی ہوگی۔