’’قائدین محترم‘‘ صرف خدمت کافی نہیں

October 10, 2014

اپنے گزشتہ کالم میں، میں نے اپوزیشن جماعتوں کے آئندہ کے لائحہ عمل اور متوقع گروپ بندی کا صرف حوالہ دیا تھا۔ اس پر بات کالم کے آخر میں کروں گا۔ پہلے کچھ ضروری باتیں مسلم لیگ کی قیادت کے گوش گزار کرنا ضروری ہیں!
سب سے پہلی بات ہے کہ Reality سے زیادہ اہم چیز Perception ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام ترنامساعد حالات اوربہت سی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلم لیگ کی صوبائی اور وفاقی حکومت کی کارکردگی ماضی کی تمام جماعتوں سے بہتر ہے۔ ان کےمستقبل کےمنصوبےجن کی تکمیل کا خوف ان کے حریفوں کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے اتنے دیرپا اثرات کے حامل ہیں کہ اگر ان میں سے آدھے بھی مکمل ہوگئے تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننے کے بہت سے خواہشمند آئندہ الیکشن میں بھی اپنی شیروانیاں نہیں سلا سکیں گے۔ مگر دوسری طرف عمران خان کے مسلسل جھوٹ، میڈیا کے کچھ ’’ملازمت پیشہ‘‘ اینکر اور کچھ بوجوہ ناراض کالم نگاروں نے ایسی فضا پیدا کر رکھی ہے جیسے قوم پر اس وقت تاریخ کے بدترین حکمران مسلط ہیں۔ ایسے سب دوستوں کو (الا ابلیس) مینیج کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لئے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بہرحال کہنا مجھے یہ ہے کہ حکومت اپنےمثبت نوعیت کے کام بھی کرتی رہے اور منفی پراپیگنڈے کو بھی قطعاً غیراہم نہ سمجھے۔ عوام کو ایسے مسائل کے حوالے سے بھی بھڑکایاجاتا ہے جس میں سے کچھ کا موجودہ حکومت سے کوئی تعلق نہیں اور کچھ نااہلی کے زمرے میں آتے ہیں تاہم تعمیری اورترقیاتی کاموں کے تسلسل کے ساتھ ساتھ حکومت کا امیج بہتر بنانے کے لئے سب سے اہم اقدام جس کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انصارعباسی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے وہ پی پی پی اور عمران خان کے مقابلے میں جلسوں کا آغاز نہ کریں۔ میرے خیال میں اس سے الیکشن کی فضا پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اس کی بجائے وزیراعظم پاکستان کے مختلف شہروںکا دورہ کریں اور وہاں کسی بڑے ہال میں کارکنوں کے بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کریں۔ ان کی شکایات سنیں، اس کا ازالہ کریں اور ناراض رہنمائوں کو منانے کی کوشش کریں۔ اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب اب سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں کی بجائے کارکنوں کے اجتماعات کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ ان سے مشاورت کریں۔ نارووال کے ایک قصبے میں بیٹھا ہوا کوئی ایم پی اے سیاسیات کی پی ایچ ڈی سے زیادہ زمینی حقائق سے واقف اور سیاسی مسائل کا حل جانتا ہے۔ وہ روزانہ ہزاروں لوگوں سے ملتا ہے وہ تو جب کسی گلی میں سے گزر رہا ہوتا ہے تو محلے کی کوئی عورت دروازے کا ’’آدھا پٹ‘‘ کھول کرکہتی ہے۔ ’’بھائی بازار جارہے ہو، تو یہ لو پیسے میرے لئے دو کلو شلجم بھی لیتے آنا‘‘ لہٰذا ان چراغوں کو حقیر نہ سمجھیں۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ سی ایم ہائوس اور پی ایم ہائوس میں صرف باادب اور سہمے ہوئے خدام کے پائوں کی دبی دبی سی چاپ سنائی دیتی ہے۔ اسے بارونق بنائیں۔ گزشتہ ادوار میں یہ علاقے ’’نوگو ایریا‘‘ میں شمار نہیں ہوتے تھے۔
مسلم لیگ کی حکومت کو 14ماہ گزر چکے ہیں اور مشرف کے مارشل لا کی سختیاںاپنے جسم و جاں پرسہنے والے صدیق الفاروق کو کوئی ذمہ داری سونپنے میں 14ماہ صرف ہوئے ہیں۔ بدترین تشدد برداشت کرنے والے رانا ثنااللہ کو بغیر ثبوت کے معطل کر دیا گیا حالانکہ میں نے اس وقت کہا تھا اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا چنانچہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت بیسیوں دوسرے ’’ملزموں‘‘ کے خلاف ایف آئی آر درج کراد ی گئی۔ مگر صد آفرین رانا ثنا اللہ پر کہ وہ فیصل آباد کا سیاسی ’’تھم‘‘ہونے کے باوجود اپنے ورکروں کو نہ صرف ٹھنڈا کرتا رہا بلکہ آج بھی ہر محاذ پر حکومت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے۔ رئوف طاہر ایسے بے لوث اور مخلص اور صف اول کے صحافی سے صحیح کام لینے کی بجائے اسے ایسی جگہ لگا دیا گیا جس جگہ کو ’’خانہ پری‘‘ کہا جاتا ہے اور اس میں بھی ایک سال لگا۔ اسی طرح مشتاق شاہ ایسے سکہ بند مسلم لیگی اور لیبر لیڈر کو ٹکٹ نہ دیا گیا۔ اب انہیں زکوٰۃ اور عشر کے تختے پر کئی ماہ کے غور و فکر کے بعد ’’چسپاں‘‘ کردیا گیا۔ منڈی بہاو الدین کا ظفراقبال جوسچا مسلم لیگی اور قیادت کا جاں نثار ہے ٹکٹ سے بھی محروم رہا اور یوسف بے کارواں بھی بنا پھررہا ہے۔ جرمنی سے شاہدگوندل سرمایہ کار لے کر آیا۔ وہ ایک اعزازی پوسٹ پر کام کر رہا ہے مگر اس کے علاقے میں اس کا تھانیدار بھی اس کی نہیں سنتا۔
ایک بہت بڑی زیادتی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے بلکہ سوفیصد یقین ہے وہ اس سے بے خبر ہوں گے۔ طارق شیخ نام کاایک شخص جس کا خاندان قیام پاکستان سے ایبٹ روڈ پر تھانہ قلعہ گوجرسنگھ کےبرابر میں واقع اپنے ایک کنال کے مکان میں رہتا تھا، انہوں نے گراکر اس کی جگہ نیاگھر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔تھانے والوں نے خالی پلاٹ دیکھا تو اس پر قبضہ کرلیا۔ میں نے وزیراعلیٰ سے بات کی انہوں نے کمال مہربانی سے (اس وقت وہ واقعی بہت مہربان ہوتے تھے) ڈاکٹر توقیر شاہ کو میر ےدفتر بھیجا۔ شاہ صاحب نے طارق شیخ کےسارے کاغذات چیک کئے اور پوری تسلی کے بعد کہ ان کے پلاٹ پرواقعی قبضہ ہوا ہے،وزیراعلیٰ کو رپورٹ کردی اورپولیس سے پلاٹ خالی کرالیا گیا۔ صرف یہی نہیں عدالتوں نے بھی تسلیم کیاکہ پلاٹ پر قبضہ کیاگیا ہے۔اب چندماہ پیشتر پولیس حکومت ِ پنجاب کی معرفت عدالت میں گئی ہے اور جس پلاٹ پر پلازہ تعمیر ہوچکاہے اس کی تعمیر رکوا دی گئی ہے۔ طارق شیخ کو ہارٹ اٹیک ہوگیاہے اوروہ اپنے کمرے میںلگی پوری بے بسی کے ساتھ اپنے لیڈروں نوازشریف اور شہبازشریف کی تصویروں سے شاید یہ پوچھتا نظر آتا ہے کہ جوجماعت اپنے کارکنوں کو بھی غاصبوں کے دست ِ ستم سے محفوظ نہیں رکھ سکتی وہ دوسروںکو کیا تحفظ دے گی؟اس ستم ظریفی کو ہم کیا نام دیں گے؟
ابھی تک میں نے جو کچھ کہا ہے اس میں افراد کے نام صرف بطور مثال دیئے ہیں۔میں ایک بات کہہ کر سلسلہ ختم کرتاہوں کہ کارکنوں کواپنے ساتھ رکھیں، ان کو نوکریاں دیں اور اس کے علاوہ بیسیوں ایگزیکٹو پوسٹ اورثقافتی اداروں کےسربراہوں کی جن نشستوں پر بیوروکریٹس کے دوستوں نےاضافی ذمہ داری کے نام پرقبضہ کیا ہوا ہے ان دانشوروںکو فائز کریںجو ہر طرح کے میرٹ پر پورے اترتے ہیں!
اب کچھ دوسری باتیں.. میں نے وزیراعظم میاں نوازشریف سے ایک ملاقات میں گزارش کی تھی کہ عوام مہنگائی کو بھول جائیں گے اور دوسرے بہت سے مسائل کو بھی برداشت کرلیں گے۔ اگر آپ ان کو صرف ایک چھت مہیا کردیں۔ آپ ملک کے چند بڑے شہروں میں کئی کئی منزلہ لاکھوں فلیٹ بنائیں۔ جس کی چند ہزار ڈائون پے منٹ ہو اور دس ہزار روپے ماہوار کرایہ جو وہ پہلے ہی سے ادا کر رہے ہوں گے، ان سےوصول کریں۔ زمین سرکاری ہوگی اور ملک ریاض سے ہی مدد کیوں نہ لینا پڑے وہ یہ کام لاگت سے بھی کم پر کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔ ان فلیٹوں کی ضرورت دس بارہ بڑے شہروں سے زیادہ نہیں پڑے گی کیونکہ قصبوں اور دیہات میں کوئی کرائے کے مکان میں نہیں رہتا۔ سب کے اپنے آبائی گھر ہیں۔
میاں صاحب کا کہنا تھا لوگ فلیٹوں میں رہنا پسندنہیں کرتے۔ میں نے عرض کیا جناب کئی خاندان کئی پلازوںکی سیڑھیوں کے نیچے رہ رہے ہیں۔ بہرحال میری یہی گزارش ہے کہ پنجاب کے دردمند وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی لوگوں کو گھروں کی بجائے فلیٹ دیں اس سے بہت بڑی اکثریت کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ایک گزارش اور کرنا ہے۔ ٹی وی پر عمران خان کا جلسہ دکھایا گیا۔ اس کے فوراً بعد وزیراعظم کو سیلاب زدگان سےخطاب کا منظر دیکھنےکو ملا۔ ظاہر ہے عمران خان کے جلسے میں ہزاروں لوگ تھے کیونکہ وہ جلسہ تھا۔ وزیراعظم کےگرد چند سو لوگ کھڑے تھے کیونکہ وہ سیلاب زدگان تھے۔وزیراعظم اگروہاں گئے تھے تو پھروہاں لوگوں کا جم غفیر بہرحال نظر آنا چاہئے تھا۔یہ بات ان کے منیجروں کو سمجھ آنا چاہئے۔ ایک اوربات ٹی وی اور کالموں میں کچھ لوگ غیراخلاقی زبان اور غیراخلاقی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ ان کا کلچر ہے، مسلم لیگ کا یہ کلچر نہیں ۔ چنانچہ اپنے ترجمانوں کو ہدایت کریں کہ وہ کسی گندی بات کا جواب بھی مہذب پیرائے میں دیں۔ کلچر کے فرق کی ایک بہترین مثال جاوید ہاشمی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جاوید ہاشمی نےمسلم لیگ کو چھوڑا توکسی مسلم لیگی نے ان کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی مگر جب جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کو چھوڑا تو انہوں نے ہر جگہ ان کےساتھ وہ سلوک کیا جو وہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں کرنا چاہتے ہیں۔ خداوندا! یہ کون سی مخلوق ہمارے درمیان پیدا ہوگئی ہے؟
اپوزیشن جماعتوں کا ذ کر پھر رہ گیا اب یہ کل سہی!