ضمنی انتخاب یا بقاکی جنگ

October 12, 2014

شہر کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ کسی نے اسے کشیپ پور کہا تو کسی نے باغ پور۔ کسی قافلے کی منزل میسان تھی تو کہیں ڈاچیوں والے مول استھان جاتے تھے۔ مگر ان سب ناموں کے علاوہ ملتان کو کشٹ پور، ہنس پور اور سانبھ پور کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ہر نام کے پیچھے ایک کہانی ہے اور کہانی جیسی دل فریب کوئی حقیقت نہیں ہوا کرتی۔ ملتان کا سب سے قدیم نام، آج سے لگ بھگ آٹھ ہزار سال پہلے میسان یا مائستھان کے طور پہ ملتا ہے۔ 664 عیسوی میں پہلی بار مسلمان فوج، مہلب بن ابی صفرا کی قیادت میں ملتان تک پہنچی تو سہی مگر صحیح معنوں میں ملتان کو محمد بن قاسم نے 712 عیسوی میں فتح کیا۔
برصغیر کے بہت سے شہروں کی طرح ملتان والوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ سکندر اعظم یہیں زخمی ہوا تھا۔ یہاں سے نکلنے والا مال غنیمت جب حجاج بن یوسف کے خزانے میں پہنچا تو شہر کا نام ہی مدینتہ الذھب پڑ گیا یعنی سونے کا شہر۔ کچھ صدیوں بعد محمود غزنوی بھی یہاں سے گزرا۔ پرتھوی راج چوہان کو شکست ہوئی توہندوستان کے ساتھ ساتھ ملتان بھی مسلمان حکمرانوں کے پاس آگیا۔ خاندان غلاماں کی حکومت میں سرحدی شہر ہونے کے ناتے ملتان پر خاص توجہ دی گئی۔ یہ شہر کی تاریخ کا سب سے با رونق دور تھا جس میں امیر خسرو جیسے شاعر نے یہاں قیام کیا، نئے باغات اور عمارتیں بنیں اور ملتان طرز تعمیر کے اعلیٰ شاہکار کے طور پر وجود میں آیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اس شہر کی اہمیت کسی صورت بھی کم نہ ہوسکی۔ ہر دور میں ملتان پنجاب کی سیاست کا اہم گڑھ ثابت ہوا۔ حتی کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوکو جب ضیاالحق نے گرفتار کرنے کے بعد چند روز کے لئے رہا کیا تو بھٹو صاحب نے مارشل لا کے باوجود ملتان شہر میں فقید المثال جلسہ کرکے ناقدین کو حیران کردیا تھا۔آج بھی ہر ذی شعور شخص کی نظریں ملتان کے حلقہ این اے149-پر مرکوز ہیں۔
جمہوریت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے والے مخدوم جاوید ہاشمی کے اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 16اکتوبر کو اس حلقے میں ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ ضمنی انتخاب کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے مگر جن حالات میں ضمنی انتخابات ملتان میں منعقد ہورہے ہیں ،اس کی ملکی سیاست میں بڑی اہمیت ہے۔ ملتان کی سیاست کے تینوں بڑے مخدوم اس انتخابی معرکے میں برسرپیکار دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے شاید شکست کے خوف سے اپنا پارٹی امیدوار کھڑا کرکے اسے’’بلے ‘‘کے انتخابی نشان کا شرف نہیں بخشا۔ تحریک انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ جس الیکشن کمیشن پر انہوں نے عدم اعتماد کیا ہوا ہے تو اس کے زیر انتظام وہ انتخابی معرکہ کیسے لڑسکتے ہیں۔ مگر قارئین کو حیرانی اس وقت ہوئی ہوگی جب جمعہ کی شام ملتان میں تحریک انصاف کے شاندار جلسے میں پیپلزپارٹی کی قیادت سے حال ہی میں ناراض ہونے والے عامر ڈوگر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب کے شانہ بشانہ نظر آئے۔ یعنی کے یہ طے ہوا کہ آزاد امیدوار عامر ڈوگر پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں،ویسے تو شاہ محمود قریشی چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں بھی کہہ چکے تھے کہ تحریک انصاف عامر ڈوگر کی حمایت کرے گی۔ ملتان کی روایتی سیاست کے تینوں بڑے کھلاڑی مخدوم یوسف رضا گیلانی ،مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی اس انتخابی معرکے کو سرکرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ۔ ایک مخدوم ہاشمی براہ راست ضمنی انتخاب میں خود حصہ لے رہے ہیں جبکہ باقی دو بالواسطہ اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی حمایت کررہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے جمعہ کو ملتان کی تاریخ کا ایک تاریخ ساز جلسہ کرکے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے، جلسے میں 7 سے زیادہ انسانی جانوں کا نقصان انتہائی افسوسناک ہے، بدانتظامی کی وجہ سے درجنوں افراد شدید زخمی ہوئے ہیں جو ایک المیہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ بڑے اجتماعات یا انتخابی جلسوں کے لئے منظم طریقے سے انتظامات کریں۔ انسانی جانیں بہت قیمتی ہوتی ہیں مگر ہمارے قائدین کو شاید اس کا احساس نہیں ہے۔ ملتان کی سیاست کی طرف واپس آئیں تو حیرانی کی بات ہے کہ تحریک انصاف ہاشمی کو شکست دینے کے لنے بھرپور انتخابی مہم چلارہی ہے مگر براہ راست اپنا امیدوار کھڑا کرنے سے کتراتی رہی ہے۔ حالانکہ جاوید ہاشمی کے مستعفی ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی نے اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتارنے کا عندیہ دیا تھا مگر پھر شاید کوئی مصلحت آڑے آگئی یا شکست کے خوف نے مجبور کردیا۔
جب کہ دوسری جانب مسلم لیگ ن نے انتخابی معرکے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے کے بجائے جاوید ہاشمی کی حمایت کرنے میں عافیت جانی ہے۔ ملتان این اے149-میں مسلم لیگ ن کا ایک بڑا ووٹ بنک موجود ہے اور 2008میں ن لیگ کے طارق رشید اس حلقے سے ممبر قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں جب انہوں نے ڈوگر فیملی کے لیاقت ڈوگر کو ہرایا تھا۔ مگر اس بار طارق رشید پارٹی فیصلے کے خلاف خود ہی بطور آزاد امیدوار ہاشمی کے مقابلے میں میدان میں آگئے ہیں۔ جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ ن کو براہ راست طارق رشید بہت نقصان پہنچائیں گے۔ جب کہ ملتان پر طویل عرصے تک راج کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی دو بڑی جماعتوں کے برعکس علی الاعلان اپنے امیدوار کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ ویسے ملتان کا یہ حلقہ لیگی حلقے کے طور پر مشہور ہے مگر مخدوم یوسف رضاگیلانی نے اپنے قریبی دوست جاوید صدیقی کو اس حلقے کا ٹکٹ دلوایا ہے ۔ جنہیں ماضی میں الیکشن ہارنے کے بعد گیلانی نے ملتان ڈویژن کے تمام میگا پروجیکٹس کا انچارج لگایا تھا مگر باوجود اس کے ان کی کبھی بھی اس حلقے میں کارکردگی صوبائی یا قومی سطح پر اچھی نہیں رہی ہے۔ البتہ تحریک انصاف کے جلسے کے بعد طے ہوچکا ہے کہ 16کو اصل مقابلہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عامر ڈوگر اور جاوید ہاشمی کے درمیان ہوگا۔ ملتان کا انتخابی معرکہ مسلم لیگ ن کی بقا کا مسئلہ ہے۔ تحریک انصاف اگر ہار گئی تو شاید دھاندلی کے نعروں میں بات دب جائے لیکن اگر مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ جاوید ہاشمی کو شکست ہوئی تو دوسرے الفاظ میں پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی شکست ہوگی۔ حکمرانوں سے عرض کروں گا کہ ملتان کے ضمنی انتخاب کے دوران شفافیت کی نئی مثال قائم کریں۔ جیت بیشک کسی بھی جماعت کی ہو مگر انتظامی مشینری کی مداخلت حکومت نہیں بلکہ ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ملتان سے مجھے اطلاعات موصول ہوئی ہیں تو آج کے دن تک تو پنجاب حکومت کی جانب سے کسی بھی سطح پر کوئی مداخلت نہیں کی گئی بلکہ تحریک انصاف کے زخمیوں کو بہتر طبی امداد دینا ایک اچھا اقدام ہے جو ویسے حکومت کی ذمہ داری بھی تھی۔ لیکن اگلے دو یا تین روز میں مجھے ڈر ہے کہ کہیں حکمراں بوکھلاہٹ میں کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھیں ،اس لئے بہتر ہوگا کہ طاقت نہیں بلکہ حکمت سے اس معرکے کو سر کرنے کی کوشش کریں۔ مسلم لیگ ن کو طارق رشید بہت نقصان پہنچارہے ہیں تو اگر مسلم لیگ ن نے اپنے حمایت یافتہ امیدوار کو ملتان سے کامیاب کرانا ہے تو طارق رشید کو دستبردار کرانے کے لئے حکمت عملی تشکیل دیں اور اگر پھر بھی ہار مقد ربنتی ہے تو اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوشی سے ہار قبول کریں۔ یہی مشورہ تحریک انصاف کے لئے بھی ہے۔ مگر جاوید ہاشمی کا تحریک انصاف کے جلسے کے بعد بھی پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ ملتان کا ضمنی الیکشن ملک کے آئندہ مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔