سب کو غداربنادیا تو محب الوطن کون ہو گا

September 01, 2016

مہربانی ہو گی محمود خان اچکزئی اوراسفندیار خان ولی کو الطاف حسین کے ساتھ بریکٹ نہ کریں۔ ملک دشمنی اور غداری کے تمام شواہد جب تک واضع طورپر سامنے نہ آ جائیں، کسی کو غدار نہیں قرار دیاجاناچاہیے۔ اگر کوئی آپ کی مرضی کی بات نہ کرےیا قوم پرستی کی سیاست کے لوازمات کو پورا کرنےاور اپنی محرومیوں کی وجہ سے سخت زبان یا بے جا تنقید بھی کرے تو ایسی باتوں کا جواب ضرور دے دیں۔ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی، کوئی جرم سرزد ہوا تو قانونی کارروائی بھی کریں لیکن معاملات کو اس نہج تک مت پہنچا دیں کہ دوسرے کو غدار ہی قرار دے دیاجائے۔ اگر کسی نے اداروں پر جائز یا ناجائز تنقید بھی کر دی تو اُسے فوری ملک دشمنی سے نہ جوڑیں۔ اصولاً تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے لیکن اگر کوئی تنقید میں کچھ ناجائز بھی کرجاتا ہے تو اُسے انڈین ایجنٹ قرار دینا کوئی عقل مندی نہیں۔ الطاف حسین نے تو پاکستان کو توڑنے کی صاف صاف بات کی، اس ملک کو گالی دی اورپاکستان کے خلاف دشمنوں سے مدد مانگی اس لیے یہاں غداری بلکل واضع ہو گئی۔ اچکزئی نے کوئٹہ دھماکے کے بعد ایجنسیوں کے احتساب کی بات کی۔ اچکزئی کی تنقید ناجائز ہو سکتی ہے، ٹائمنگ بھی شاید درست نہ ہو لیکن یہ کہنا کہ انہوں نے غداری کر دی یہ رویہ ٹھیک نہیں۔ اسفندیار ولی کو غدار کہا جا رہا ہے کہ اُس نے کیوں کر یہ کہا وہ افغانی تھے، افغانی ہیں اور افغانی رہیں گے۔ سننے میں آیا کہ یہ بیان افغان مہاجرین کو زبردستی پاکستان سے نکالنے کے ردعمل میں دیا گیا۔ پاکستان کی بہت سی سیاسی جماعتوں کی رائے میں افغان مہاجرین کو زبردستی بے عزت کر کے پاکستان سے واپس افغانستان نہیں بھیجنا چاہیے۔ میرا بھی یہی خیال ہے کیوں کہ تین دہائیوں تک جن کو ہم نے پالا پوسا اور اُن کا خیال رکھا اُن کو اچھے طریقے سے عزت کے ساتھ واپس بھیجیں اس سے افغانستان میں پاکستان کےلیے ہمدردی کے جذبات ہی پیدا ہوںگے۔جہاں تک اسفندیار ولی کا یہ کہناہے کہ وہ افغانی ہیں،تھے اور رہیں گے تو اگر میری اطلاعات درست ہیں تو خیبر پختونخوا کے محکمہ مال (Revenue) کے ریکارڈ میں انگریزوں کے زمانہ سے بہت بڑی تعداد میں پختونوں کی قوم کے خانے میں افغان ہی لکھا جاتاہے۔ اس کا یہ مقصد ہر گز نہیں لینا چاہیے کہ وہ پاکستان کے قومیت کو رد کرتے ہوئے افغانستان کو اپنا ملک تصور کر رہے ہیں۔ کسی زمانہ میں گریٹر پختونستان کی باتیں ضرور ہوا کرتیں تھیں لیکن اب تو ایسی بات بھی کوئی نہیں کرتا۔ اچکزئی، اسنفندیار اور اُن کی پارٹیوں کے منتخب افراد تو پاکستان کے آئین کا حلف اٹھاتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے تو خیبر پختونخوا میں حکومت بھی کی۔ ان پر صوبہ میں کرپشن کرنے پر اعتراض کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسفندیار کی پارٹی کی صوبائی حکومت نے پاکستان دشمنی اور غداری کا کوئی کام کیا۔ اگر قابل اعتراض باتوں اور کبھی کبھار کی بے جا تنقید کو فوکس کر کے سیاستدانوں اور دوسرے افراد کی پاکستانیت پر ہی شبہ کر دیا جائے تو پھر غداری کے داغ سے شاید ہی کوئی بچے گا۔ اداروں پر تو تنقید تحریک انصاف ، ن لیگ اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے بھی کی۔ سوشل میڈیا میں تو بہت سے رہنمائوں کو غدار لکھا اور کہا جاتاہے۔ میں سوچتا ہوں اگر غداری کے سرٹیفیکیٹ اس فراخدلی سے ہی دیے جاتےرہے تو پھر محب الوطن تو ہمیں یہاں ڈھونڈنےپڑیں گے۔ ہاں بہت سوں کا یہ گلہ جائزہے کہ اگر سیاستدان کو کسی کہی ہوئی بات کے توڑ موڑ کر یا اُسے اپنی مرضی کا رنگ دے کر غدار قرار دیاجا سکتاہے توپرویز مشرف بہت کچھ کر کے بھی حب الوطن کیسے ہیں۔ آئین سے غداری کا جرم تو مشرف نے کیا ہی، امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی خودمختاری کا سودا کیا، ڈرون حملوں کی اجازت دی، امریکی فوج کو یہاں ہوائی اڈوں کے ساتھ ساتھ سب کچھ دیا، پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض بیچا، پاک فوج کو امریکاکے مقاصدکے حصول کےلیے استعمال کیا لیکن اس سب کے باوجود مشرف کی محب الوطنی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ سال 2005-06 میں الطاف حسین نے ہندوستان میں جا کرپاکستان مخالف تقریر کی اورپاکستان کے قیام کو بہت بڑی غلطی قرار دیا۔ اس تقریر کے دوسرے روز مشرف حکومت نے دہلی میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کو مجبور کیا کہ الطاف حسین کو عشایہ دیں۔ اُس وقت کے انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر عزیز خان اورپریس منسٹر رائے ریاض نے کچھ عرصہ قبل مجھے بتایا کہ پاکستان ہائی کمیشن کے تمام اہلکار الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریرکے بعد عشایہ دینےکے سخت خلاف تھے لیکن انہیں اسلام آبادسے مجبور کیا گیا کہ وہ ایسا کریں۔ کیا اسفندیار اور اچکزئی نے جو کہا وہ اُس سے سنگین ہے جو مشرف نے کیا اور کہا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو جتنی طاقت مشرف نےاپنے دور میں دی اور12 مئی سمیت جس قسم کے جرائم کیے وہ پاکستان دشمنی میں کسی بھی طورپر کم نہیں تھے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال میں ایم کیو ایم کی طر ف الطاف حسین سے مکمل لاتعلقی کے بعد فاروق ستار اور متحدہ کے دوسرے رہنمائوں کو موقع دیں بلکہ اُن کی مدد کریں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اُسے سچ ثابت کر سکیں۔ الطاف حسین کی وجہ سے ایم کیو ایم کے تمام رہنمائوںاورپارٹی ورکرز کی پاکستان سے محبت کو بلاوجہ شک کی نظر سے مت دیکھیں۔ ہاں ایم کیو ایم ہو، اچکزئی ، اسفندیار، کوئی ن لیگی یا کسی کا تحریک انصاف ، جماعت اسلامی یا کسی دوسرے جماعت سے تعلق ہو اگر کسی نے قانون کو توڑا، اُس کی خلاف ورزی کی اُسے ضرور پکڑیں، سزا دیں۔ بس گزارش اتنی ہے کہ غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں جلدی نہ کریں۔


.