تیل کی سیاست سے لت پت امریکہ

October 22, 2014

یہ بات تو یقیناً آپ جانتے ہونگے کہ امریکہ دنیا میں ترقی پذیر ممالک کواسلحہ کی فروخت میں سب سے آگے ہے، شاید یہ بات آپ کے علم میں نہ ہو کہ امریکہ بہادر کے دنیا بھر میں 737فوجی اڈے ہیں جن کی قیمت لگ بھگ 137ارب ڈالر ہے( قیمت سے مراد یہ ہے کہ اگر ان فوجی اڈوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے تو لاگت کم از کم137 ارب ڈالر آئے گی) جوکہ بہت سے ملکوں کے جی ڈی پی (گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ) سے بھی زیادہ ہے۔ 2005میں امریکی فوجیوں کی تعداد جو بیرون ملک میں تعینات تھی دو لاکھ نو سو 75تھی جو اب تین کے قریب پہنچ چکی ہے ان کی دیکھ بھال اور مدد کیلئے 81ہزار چار سو 25 مزید امریکی شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ پنٹیگان کی ایک رپورٹ کے مطابق ان فوجی اڈوں میں 32ہزار 7سو 23بیرکس، ہینگرز، اسپتال اور دوسری عمارتیں شامل ہیں، علاوہ ازیں امریکی افواج نے ان ممالک میں مزید 16 ہزار 5 سو 27عمارتیں لیز پر لے رکھی ہیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فوجی اڈوں کی مندرجہ بالا تعداد کلی طور پر درست نہیں اور وہ یوں کہ پنٹیگان نے اس تعداد میں سربیا، کوسووہ، عراق، افغانستان، اسرائیل، قرغستان، قطر، ازبکستان اور ہمارے ’’پیارے ملک‘‘ پاکستان کے فوجی اڈوں کو شامل نہیں کیا گیا اس طرح صدر اوباما ناجائز دبائو ڈال کر جنگ کے نام پر اب تک ایک کھرب 83 ارب ڈالر کی خطیر رقم کانگریس سے منظور کرواچکے ہیں۔ یہ رقم چین، روس، برطانیہ اور بھارت کے مجموعی فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ بش انتظامیہ نے ’’ہوم لینڈ سیکورٹی‘‘ کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا ہے جو سالانہ 40 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے جبکہ دہشت گردی کے حملوں کو ناکام بنانے کے لئے امریکہ میں داخلے کے تمام راستوں پر چیکنگ کی مد میں 15 ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے جس میں بتدریج ہر سال اضافہ ہورہا ہے 2010 ستمبر میں اوباما حکومت نے عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں کے لئے 190 ارب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا جو منظور کرلیا گیا امریکی صدر اوباما نے آغاز حکومت سے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے لئے درکار رقم میں 43 ارب ڈالر کا اضافہ کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ اضافی رقم میں سے چھ ارب ڈالر افغانستان میں اضافی امریکی فوج کے لئے خرچ ہونگے جبکہ گیارہ ارب ڈالر سے امریکی افواج کے لئے بارودی سرنگوں سے محفوظ سات ہزار بکتر بند گاڑیاں خریدی جائیں گی۔
وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے سینیٹ کو بتایا کہ امریکی فوجیوں کا جانی نقصان کم سے کم ہو سکے اس لئے ہم نے رقم کا کچھ حصہ دشمن کے حملوں سے بچنے اور فوج کے لئے ’’لڑاکا گاڑیوں‘‘ کی خریداری پر خرچ کیا ہے۔ 9ارب ڈالر مستقبل کی فوجی کارروائیوں کےلئےدرکار ٹیکنالوجی اور آلات کی خریداری، چھ ارب ڈالر امریکی افواج کی فوری تعیناتی کے لئے تیاری، ایک ارب ڈالر امریکی سہولتوں اور اڈوں کیلئے، جبکہ ایک ارب ڈالر افغان سیکورٹی عملہ کی تربیت اور انہیں اسلحے کی فراہمی کے لئے خرچ کئے جائیں گے۔ ان فضول خرچیوں کے لئے اتنے ڈھیر سارے ڈالر کہاں سے آئے تھے؟ جواب ہے تیسری دنیا کے ممالک سے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سال 2009 میں امریکہ نے تیسری دنیا کے ممالک کو دوسرے ممالک سے زیادہ ہتھیار فروخت کئے ہیں۔ سال گزشتہ تیسری دنیا جسے تھرڈ ورلڈ بھی کہتے ہیں کے ممالک نے امریکہ سے ہی سب سے زیادہ ہتھیار خریدے، ان ممالک نے 43 فیصد ہتھیاروں کی خریداری امریکہ سے کی جن کی مالیت 15.2 بلین ڈالر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2011-12 میں پاکستان،بھارت اور سعودی عرب نےسب سے زیادہ ہتھیار حربی سازو و سامان امریکہ سے خریدا، خود ساختہ خطرات میں گھرے ہوئے پاکستان نے صرف 2010 میں 1.7بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدے۔ دکاندار (امریکہ) نے اپنے مال کی فروخت کا جواز مہیا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت کی مدافعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیو کلئیر بموں سے لیس پاکستان مخالف دہشت گردی جنگ میں اہم حلیف ہے۔ اسامہ بن لادن کے نام پراسلحے کی فروخت امریکہ کے لئے نہایت منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرگیا تھا یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک اسامہ کو جینے نہیں دیتے تھے اورامریکہ مرنے نہیں دیتا تھا۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ القاعدہ کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسامہ مرحوم اور القاعدہ کی حمایت میں زبردست کمی ہوئی ہے جبکہ امریکہ کے اسلحہ کی فروخت بڑھ گئی ہے۔ امریکہ کی اسلحے کی فروخت سے ہونے والی آمدنی 3.4 ارب ڈالر زیادہ ہو گئی ہے ۔ ظاہر ہے اگر آمدنی میں اضافہ نہ ہوتا تو امریکہ دنیا میں اپنے فوجی اڈوں کے تحفظ اور عراق و افغانستان جنگ پر 600بلین ڈالر کیسے صرف کرتا؟
کانگریس ریسرچ سروس (سی آر ایس) کی ایک رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اوباما انتظامیہ عراق اور افغانستان جنگ پر ہر ماہ 13بلین ڈالر خرچ کرتی تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف افغانستان پر ماہانہ اخراجات 10 بلین ڈالر آتے تھے، جبکہ تین بلین ڈالر افغان سیکورٹی کے حصے میں آتے تھے رپورٹ کے مطابق دیگر چھوٹے موٹے اخراجات اس میں شامل نہیں۔ سی آر ایس نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے مالی سال 2015 کے لئے مزید فنڈز کی درخواست کی ہے جس سے 56بلین ڈالر صرف مڈل ایسٹ پر خرچ ہونگے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2017تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ 1.4 کھرب ڈالر خرچ کر سکتا ہے۔
یہاں ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے گزشتہ ساٹھ برسوں میں امریکہ نے 40 غیر ملکی اور 23 قوم پرست حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جس میں کامیابی کا تناسب زیادہ ہے یہ حکومتیں اپنے عوام میں بے حد مقبول تھیں لیکن وہاں امریکہ کے مفادات محفوظ نہیں تھے۔
جس کو چاہیں تباہ کر ڈالیں
آج کل آپ کا زمانہ ہے