پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی

November 03, 2014

یوکرین کے بحران اور دنیا میں تیل کی طلب و رسد میں کمی کے باعث بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی ہورہی تھی جو 106 ڈالر فی بیرل سے کم ہوکر اگست میں 95 ڈالر، ستمبر میں 93 ڈالر اور اکتوبر میں 84.28 ڈالر فی بیرل تک جاپہنچی تھیں یعنی صرف اکتوبر میں 9 ڈالر فی بیرل کی کمی دیکھنے میں آئی جو تقریباً 9.5% بنتی ہے۔ پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کو اگر بینچ مارک رکھیں تو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں اتنی ہی کمی 9 روپے 43 پیسے کی ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں صرف 6 روپے 18پیسے کی کمی کی گئی ہے حالانکہ ڈیزل ٹرانسپورٹیشن اور بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس میں مزید کمی سے بجلی کے نرخوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں خاطر خواہ کمی آسکتی تھی۔ بہرحال گزشتہ 10 سالوں میں پیٹرولیم مصنوعات میں یہ ریکارڈ کمی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومتیں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عام آدمی تک پہنچائیں۔ مثال کے طور پر روٹی کی قیمت جو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث 4 روپے سے بڑھاکر 8 روپے تک کردی گئی ہے، کی قیمت میں اب کمی ہونی چاہئے۔ کالم لکھتے وقت چینی کی قیمت میں 2 روپے فی کلو کمی کی اطلاع آئی ہے جو 54 روپے سے کم ہوکر 52 روپے فی کلو ہوگئی ہے ،مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں بھی کمی کی گئی ہے جبکہ ایل پی جی ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن کی جانب سے ایل پی جی کی قیمت میں 25 روپے فی کلو کمی کا اعلان کیا گیا ہے جس سے گھریلو استعمال کے سلنڈر کی قیمت 300 روپے اور کمرشل سلنڈر کی قیمت 1200 روپے کم ہوجائے گی جو عوام کے لئے خوش آئند بات ہے۔
گزشتہ رات پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے ہونے والے ایک ٹی وی پروگرام میں میرے ساتھ شریک پرائیویٹ گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری امداد حسین نقوی نے بتایا کہ ایسوسی ایشن نے گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 8 فیصد کمی کردی ہے جبکہ پاکستان ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے بھی اپنے کرایوں میں تقریباً اتنی ہی کمی کا اعلان کیا ہے لیکن کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد نے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی سے انکار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بسیں، کوچز اور منی بسیں پیٹرول اور ڈیزل سے سی این جی پر منتقل ہوگئی تھی لہٰذا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے ان کی ٹرانسپورٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے ٹی وی پروگرام کے دوران بتایا کہ حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے ڈیزل کی قیمتوں سے منسلک کئے تھے اور کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک نہ پہنچانا افسوسناک بات ہے۔
پاکستان میں 44% سے زائد بجلی فرنس آئل سے پیدا کی جاتی ہے جس کی وجہ سے تیل کا امپورٹ بل 14 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا لیکن اب عالمی مارکیٹ میں فرنس آئل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی سے تیل کے امپورٹ بل میں کمی آئے گی جس سے ملکی تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یاد رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر حکومت 6 سے 14 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی اور 16% سیلز ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن حال ہی میں ECC کی میٹنگ میں ایل این جی کی امپورٹ پر GIDC اور سیلز ٹیکس ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے جس سے سستی ایل این جی امپورٹ کرکے اسے سی این جی ڈیلرز کو دیا جائے گا تاکہ سی این جی سیکٹر کی موجودہ 400MMCF گیس صنعتی سیکٹر کو منتقل کیا جاسکے جس سے صنعتوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ میں کمی آئے گی۔ امریکہ اور پولینڈ سمیت یورپی یونین کے کچھ ممالک میں شیل گیس کی دریافت نے ان ممالک کا فرنس آئل پر انحصار کم کردیا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں فرنس آئل کی طلب میں کمی ہورہی ہے۔ واضح رہے کہ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت 24سے 26 روپے فی یونٹ آتی ہے جبکہ کوئلے سے یہ لاگت صرف 8 روپے پڑتی ہے۔ اس وجہ سے پاکستان میں بھی فرنس آئل کے بجائے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے اور زیادہ تر نئے پاور پروجیکٹ کوئلے سے بجلی پیدا کے منصوبے ہیںلہٰذا ہمیں پانی یعنی ہائیڈرو سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں دیامیر، بھاشا، داسو اور بن جی ڈیم کو قابل عمل بنانا ہوگا کیونکہ ہائیڈرو سے پیدا ہونے والی بجلی سب سے سستی اور صاف ہوتی ہے۔ کوئلے اور ہائیڈرو سے آئندہ 5 سالوں میں بجلی پیدا کرنے کے لئے ہمیں تقریباً 25 سے 30 بلین ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں بجلی کی طلب اور رسد کا فرق ختم کیا جاسکے۔ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں 2018ء تک ہر سال تقریباً 3500 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنا پڑے گی جس کے لئے چین اور دیگر ممالک کی کمپنیاں پاکستان میں پرکشش منافع کے پیش نظر سرمایہ کاری کے لئے تیار ہیں۔ ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنا بھی آنے والے وقت کا تقاضا ہے لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے انرجی مکس میں تبدیلی لائے اور فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کے بجائے ہائیڈرو، کوئلے، ونڈمل، سولر اور نیوکلیئر سول انرجی جیسے متبادل ذرائع سے زیادہ سے زیادہ سستی بجلی پیدا کرکے بجلی کی اوسطاً پیداواری لاگت میں کمی لائے تاکہ صنعتی سیکٹر اور عوام کو بلاتعطل سستی بجلی مل سکے۔
یکم جنوری 2014ء سے پاکستان کو یورپی یونین کے 27 ممبر ممالک سے جی ایس پی مراعات ملنے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ یورپی یونین کو پاکستان کی ایکسپورٹ بالخصوص ٹیکسٹائل ڈیڑھ ارب ڈالر تک سالانہ بڑھ جائے گی لیکن ملک بالخصوص پنجاب میں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گزشتہ چند ماہ سے دھرنوں کی وجہ سے سیاسی بے یقینی کے باعث ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 4% کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 3.6بلین ڈالر سے کم ہوکر 3.4 بلین ڈالر ہوگئی ہیں۔ ایکسپورٹ میں سب سے زیادہ کاٹن یارن 21.78%، کاٹن فیبرک 13.52% اور بیڈویئر میں 2.27% میں کمی آئی ہے جبکہ نٹ ویئر، تولئے، خیموں، ترپال اور ریڈی میڈ گارمنٹس میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اپٹما کے چیئرمین ایس این تنویر کے مطابق اگر ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے فوری اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو ٹیکسٹائل صنعت کو 2.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔
پاکستان کی یارن ایکسپورٹ میں 22% اور کاٹن فیبرک میں 14% کمی کی وجہ سے ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ عالمی مارکیٹ میں کاٹن اور یارن کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پاکستانی یارن کی سب سے بڑی مارکیٹ چین نے نہ صرف نئی خریداری روک دی ہے بلکہ مہنگے داموں کے یارن کے پرانے کئی بڑے سودے بھی تکنیکی بنیادوں پر لینے سے انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی یارن ایکسپورٹرز کے سینکڑوں کنٹینر چین کی بندر گاہوں پر پڑے ہیں اور ہمارے ایکسپورٹر ان کے لئے چینی خریداروں کو بھاری ڈسکائونٹ دینے کو تیار ہیں۔اس کے برخلاف انڈیا جسے یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کی مراعات حاصل نہیں، کی EU میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 25% اور بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 28% اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو ہمارے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑے تجارتی مراعات جی ایس پی پلس سے اگر ہم خاطر خواہ فائدہ اٹھاکر اپنی ایکسپورٹ نہ بڑھاسکے تو یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہوگی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ملک میں جاری سیاسی دھرنے اب غیر موثر ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد میں حال ہی میں منعقدہ سرمایہ کاری کانفرنس غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی ایک عمدہ کاوش تھی۔حکومت کو چاہئے کہ وہ دھرنوں سے ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کیلئے موثر اقدامات کرے اور ان سربراہان مملکت اور غیر ملکی سرمایہ کاروں جنہوں نے پاکستان کی غیر یقینی صورتحال کے باعث اپنے دورے منسوخ کردیئے تھے، کو جلد از جلد دورہ پاکستان کی دعوت دی جائے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بحال ہوسکے۔