پاک بھارت تجارت ۔ایک جائزہ

November 20, 2014

پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے تعلقات میں بہتری اور تجارت کے بعدپاکستان میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں پیش رفت اورتجارت میں بہتری سے غیرملکی سرمایہ کاری، صنعتوں میں استحکام اورقومی معیشت کی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔
میں اپنی بات کا آغاز برطانوی راج سے کررہا ہوں۔سترویں اور اٹھارویں صدی میں ہندوستان ساری دنیا کی منڈیوں پر چھایا ہوا تھا، دنیا کی تجارت میں اس کا تیسرا نمبر تھا۔اس وقت ہندوستانی مصنوعات کی بیرونی ممالک میں زبردست مانگ تھی بالخصوص ہندوستانی پارچہ جات اور ان سے بنی ہوئی مصنوعات کی پوری دنیا میں بہت طلب تھی۔ چنانچہ ہندوستان کے کپڑے کے استعمال کو روکنے کیلئے ایڈن برگ میں محب وطن شہریوں کی ایک ایسوسی ایشن بنائی گئی۔ اس ایسوسی ایشن نے ہندوستانی اشیاءکے خلاف زبردست مہم چلائی اور اعلان کیا کہ آئندہ سے ہندوستانی مصنوعات کے بیچنے، خریدنے اور اور استعمال کرنے والوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔
اگر کوئی شخص کسی سے چوری چھپے ایک گز ہندوستانی کپڑا بھی خریدتا تو اس کا چالان کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں تقسیم ہند کے بعد بننے والے دونوں ملک اپنا اپنا مال بیچنے کے لئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہوگئے۔ اس دور میں ایک کہاں نکل گیا اور دوسرا کہاں رہ گیا۔
اس وقت پاکستان اور بھارت کی اقتصادی حالت میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ بھارت میں مصنوعات بنانے میں لاگت کم آتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں پاکستان کی نسبت مہنگائی کم ہے، اس لئے وہاں مزدوری سستی مل جاتی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق بھارت کے صنعتی سرمائے پر شرح سود نصف ہے۔ علاوہ ازیں مارک اپ کے حوالے سے بھی بھارت کو ہم پر برتری حاصل ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں اس کی تجارت کا گراف اوپر جارہا ہے اور ہمارا نیچے کی جانب۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش سے بھارت کی تجارت 45 فیصد ہے، نیپال سے 70 فیصد، سری لنکا سے 50 فیصد اور بھوٹان سے 80 فیصد، یہ گراف اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی موجودہ تجارتی پالیسی میںکوئی بڑی خامی موجود نہیں۔ اب جہاں تک دو ’’دشمن ملکوں‘‘ یعنی پاکستان اور بھارت کی تجارت کا معاملہ ہے وہ کچھ یوں ہے۔
بھارت اور پاکستان کی تجارت کا آغاز تقسیم ملک کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ 1947ء سے شروع ہونے والی یہ دوطرفہ تجارت 1949 تک پہنچتے پہنچتے 58 فیصد ہوگئی تھی۔ پاکستان اپنا خام مال بھارت بھیجتا اور اس کے بدلے میں دوسری اشیاء درآمد کرتا۔یہ سلسلہ بخوبی جاری تھا کہ 1949 میں بھارت نے اپنی کرنسی یعنی روپے کی قیمت میں کمی کردی اور یہ چاہا کہ پاکستان بھی ایسا کرے مگر پاکستان نے انکار کردیا۔ ان حالات میں تجارتی تعلقات مخدوش ہونے شروع ہوئےاورآخر کاردونوںنے تجارت بند کردی۔ یہتعطل تقریباً دو سال تک قائم رہا۔ دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کیسے سردی مہری کا شکار ہوئے اور یہتعطل کیوں پیدا ہوا؟ اس کی سمجھ مجھے تو کیا ماہرین معاشیات کو بھی نہیں آسکی۔ اس کے بعد پھر تجارتی ڈول ڈالا گیا تو اب کے اسے’’باڈر ٹریڈ ایگریمنٹ‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ تجارت جو 58 فیصد تک جاپہنچی تھی 1965 تک صرف 2 فیصد رہ گئی اورپھر یہ ہوا کہ 1965 سے 1974 آتے آتے تک یہ بالکل ختم ہوکے رہ گئی۔ 1974 کے بعد دوبارہ ایک معاہدے کے تحت ہم نے بھارت سے رکشے درآمد کیے۔ بعد ازاں 1982 کے آتے آتے ایک معاہدے کی رو سے 42 اشیا کی تجارت کا آغاز کیا گیا۔ اس معاہدے کا نام ٹریڈ کارپوریشن آف پاکستان تھا جو بعد میں ایک بزنس کمیشن کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ 1988ء تک تجارتی اشیا کی تعداد 42 سے بڑھ کر 575 تک ہوگئی۔
ایسی صورت حال میں حکومت پاکستان کے مثبت رویئے کی وجہ سے اسے ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ قرار دے دیا گیا لیکن پھر مسئلہ کشمیر بیچ میںآگیا اور موسٹ فیورٹ نیشن کی شکل بدل گئی اور پھر دونوں ملکوں کی تجارت تعطل کا شکارہو گئی ہے۔ یہاں مجھے کہنے دیجئے کہ اس مسئلے نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
ادھر عالمی بنک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ترقی پذیر ممالک اپنی آپس کی تجارت پر عائد محصولات میں کمی کردیں تو اس سے خام مال کی قیمت میں مفید کمی ہوگی اور یہ ممالک عالمی تجارت کی مسابقتی دوڑ میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔
میں چاہتا ہوں یہ دونوں ممالک زیادہ بہتر کارکردگی نہ سہی کم از کم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ ضرور کر دکھائیں۔ وگرنہ
ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں