دہشت گردی کے خلاف جنگ اور صوبوں کا کردار

January 25, 2015

دہشت گردی کے خلاف جاری قومی جنگ میں صوبائی حکومتوں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے لیکن صوبائی حکومتوں کو نہ صرف پیچھے دھکیل دیا گیا ہے بلکہ ایسے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں ، جو آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کے خلاف ہیں۔ اگر صوبوں کو اس جنگ میں صف اوّل میں نہیں رکھا گیا اور پولیس سمیت اس کے اداروں کو مضبوط نہیں کیا گیا تو اس جنگ کے مقاصد حاصل کرنے میں بہت مشکلات ہوں گی ۔
اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف جس 20 نکاتی قومی ایکشن پلان کی منظوری دی گئی تھی ، اس کے 14 یا 15 نکات پر صوبائی حکومتوں کو ہی عمل درآمد کرنا ہے ۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس جنگ میں صوبائی حکومتوں کا بنیادی کردار ہے۔قومی ایکشن پلان کی روشنی میں تمام صوبوں نے صوبائی ایکشن پلان وضع کیے ہیں ، جو تقریباً ایک جیسے ہیں ۔ ان صوبائی ایکشن پلانز پر کامیابی سے عمل درآمد ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قومی ایکشن پلان کے مطابق صوبوں نے صوبائی ایکشن پلانز وضع تو کر لئے ہیں مگر وہ ان پلانز پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہیں ۔ اس کے کئی اسباب ہیں ۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے وفاقی حکومت کے فوجی اورنیم فوجی اداروں نے عملاً امن وامان کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں کافی عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ہو رہے ہیں ۔ قبائلی علاقوں اور مختلف ایجنسیوںمیںپولیس اوردیگر سویلین فورسز کا کردار تقریباً ختم ہو گیا ہے ۔ صوبے کے باقی علاقوں میں بھی امن وامان سےمتعلق اہم فیصلوں میں بھی صوبائی حکومت کا کردار محدود ہے ۔ بلوچستان میں طویل عرصے سے فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری ( ایف سی ) اگلے محاذوں پر کردار ادا کر رہی ہیں اور صوبائی حکومت امن وامان کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ اسی طرح سندھ میں بھی جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کی کمان ڈی جی رینجرز سندھ کے پاس ہے اور وہی آپریشنل کمیٹی کے سربراہ ہیں ۔ یہاں بھی پولیس ’’سیکنڈ لائن فورس ‘‘ ہے ۔ پنجاب میں اگرچہ وفاقی سیکورٹی اداروں کا ظاہری طور پر کوئی ’’ فرنٹ لائن‘‘ کردار نہیں ہے لیکن وہاں کی صوبائی حکومت بھی کوئی بڑا فیصلہ اپنے طور پر نہیں کر سکتی ۔ اگرچہ پنجاب کے حکمران یہ دعویٰ کرتے رہیں کہ وہ خود فیصلے کر رہے ہیں تو موجودہ حالات میں اس دعوے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ دہشت گردی کی وجہ سے امن وامان کے قیام کی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک براہ راست یا بالواسطہ طور پر وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کو منتقل ہو گئی ہے اور یہ تشویش ناک بات ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف وضع کردہ قومی ایکشن پلان کی روشنی میں صوبوں کی سطح پر جو اپیکس کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں ، ان کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کا کردار پہلے سے زیادہ محدود ہو گیا ہے ۔ اب پنجاب کے حکمران بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وفاق یا وفاقی اداروں کی مداخلت نہیں ہے ۔ اپیکس کمیٹیوں میں براہ راست فوج ، رینجرز ، ایف سی اور دیگر پیراملٹری فورسز اور ان کے انٹیلی جنس اداروں کے افسران براہ راست پالیسی سازی میں شامل ہو گئے ہیں۔صوبوں کی سطح پر قائم کردہ اپیکس کمیٹیوں کو وفاق کی سطح پر قائم کردہ اپیکس کمیٹی ہدایات جاری کرتی ہے اور وہی قومی ایکشن پلان کی نگرانی کر رہی ہے ۔ وفاقی اپیکس کمیٹی میں بھی فوجی اور نیم فوجی اداروں اور ان کے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان شریک ہیں ۔ اس طرح وفاق کی طرف سے ہی ساری پالیسیاں دی جا رہی ہیں اور صوبوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان پر عمل درآمد کریں ۔ صوبوں کے ماتحت پولیس اور دیگر صوبائی اداروں کو فرنٹ لائن پر آ کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے طور پر کوئی فیصلے کر سکتے ہیں ۔ انہیں صرف وہی کام کرنا ہے ، جو انہیں کہا جائے گا ۔ امن وامان کی ذمہ داری وفاقی اداروں کو منتقل ہونے کا عمل اس تصور کی بنیاد پر جاری ہے کہ پولیس اور دیگر صوبائی ادارے ناکام ہو چکے ہیں اور ان پر آج بھی اور مستقبل میں بھی انحصار نہیں کیا جا سکتا ۔ حالانکہ دہشت گردوں کا سب سے آسان ہدف پولیس ہے ۔ خاص طور پر کراچی میںپولیس اہلکار سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ امن وامان کے حوالے سے شعوری یا لاشعوری طور پر اختیار کردہ حکمت عملی کے تحت نہ صرف صوبائی حکومتوں کا کردار تیزی سے محدود ہو رہا ہے بلکہ صوبائی اداروں کو مضبوط بنانے کا کام بھی متاثر ہو رہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی کے ان غیر معمولی حالات میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے صوبائی اداروں کو زیادہ مضبوط بنایا جاتا اور انہیں فرنٹ لائن کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ۔ اس کے لئے وفاقی حکومت کی طرف سے صوبوں کو اضافی فنڈز بھی مہیا کیے جاتے لیکن اس کے برعکس ہو رہا ہے ۔ پولیس اور دیگر صوبائی ادارے نہ صرف وفاقی اداروں کی ہدایات پر عمل درآمد کرنے کے لئے مجبور ہیں بلکہ صوبائی حکومتیں اپنے فنڈز بھی وفاقی اداروں پر خرچ کر رہی ہیں ۔ موجودہ حکمت عملی میں اس بات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے کہ امن و امان کی بالآخر ذمہ داری پولیس اور دیگر صوبائی سویلین فورسز کی ہے ۔ فوجی اور نیم فوجی ادارے زیادہ عرصے تک داخلی سلامتی اور امن وامان سے متعلق امور میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے ہیں ۔ انتہائی غیر معمولی حالات میں داخلی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے ان اداروں کو بلایا جاتا ہے ۔ اس امر کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ بہت سارے معاملات آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کے خلاف ہیں ۔ غیر معمولی حالات کو جواز بنا کر کچھ عرصے کے لئے تو معاملات کو اس طرح چلایا جا سکتا ہے لیکن زیادہ عرصے تک نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نہ صرف صوبائی حکومتوں کو پالیسی سازی اور اقدامات میں اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے بلکہ پولیس اور دیگر صوبائی سویلین فورسز کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ وہ مستقل طور پر امن وامان کے قیام کی اپنی ذمہ داری ادا کر سکیں ۔