ویل ڈن پاکستان قونصلیٹ برمنگھم...تحریر:وقار ملک…کوونٹری

September 27, 2016

6ستمبر 1965کا دن، یوم پاکستان یا جشن آزادی عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والے سبق آموز کے ساتھ ساتھ تجدید عہد کے دن ہیں۔ یہ دن انتہائی اہمیت کے دن ہیں جنہیں یاد رکھنے کے ساتھ اپنی کامیابیوں یا غلطیوں کا ازسرنو جائزہ بھی لینا چاہئے ان دنوں کو نوجوان نسل کے سامنے بار بار دہرانے کی ضرورت ہے جو اپنے ہیروز کو دیکھیں اور اپنے قومی ہیروز کی قربانیوں کو یاد رکھیں اورانہیں آزادی کی اہمیت سے آگاہی ہو اور ساتھ ساتھ انہیں اپنی سوہنی دھرتی کی عزت وقار کا بھی احساس ہو پاکستان پر 1965 میں ہندوستان کی طرف سے جنگ کا مسلط کیا جانا بہت بڑا چیلنج تھا جسے پاکستان کی بہادر قوم نے کمال وقار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کرکے زندہ قوم ہونے کا مظاہرہ کیا، دوران جنگ ہرایک پاکستانی کو صرف ایک ہی فکر تھی کہ دشمن کا سامنا کرنا ہے اور کامیابی حاصل کرنی ہے۔ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکست دینے کے سوا کوئی اور مقصد نہ تھا یہ دن ہمیں ان جوانوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنا نام رقم کیا ان کی شجاعت کے ناقابل یقین کارناموں کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ان کی فرض شناسی اور حب الوطنی جدید جنگوں کی تاریخ میں درخشندہ مقام پر فائز کی جاسکتی ہے۔ چند روز قبل پاکستانی قونصلیٹ برمنگھم کے قونصل جنرل سید معروف اور وائس قونصل جنرل میاں عظمت فاروق نے ایک انتہائی منفرد بے مثال، خوبصورت، جذباتی جوش ولولے سے بھری ایک میٹھی میٹھی تقریب یوم دفاع کے حوالے سے منعقد کی جو اپنی مثال آپ تھی۔ تقریب میں یوم دفاع کے حوالے سے انتہائی جذباتی ویڈیوز دکھائی گئیں ایسے ملی نغمے اور گیت پیش کیے گئے جس سے ہرآنکھ آبدیدہ ہوگئی۔ جذباتی اور پاکستانیت کی اس بھری تقریب میں شرکاء کی آہ سسکیوں کی آوازیں بھی سننے کو ملیں بالخصوص جب پاکستانی پائلٹ مرحومہ مریم مختار کی ویڈیو دکھائی گئی تو تقریب میں موجود مردخواتین کا بچوں کی طرح بلبلانے کی آواز کانوں تک بآسانی پہنچ رہی تھی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ آج بھی ہمارے اندر پاکستان کی محبت اور پیار بدرجہ اتم موجود ہے آج بھی ہم اپنے پیارے پاکستان کا احترام اور اس سے خلوص نیت سے محبت کرتے ہیں جو 6ستمبر 1965 کو کرتے تھے۔ برمنگھم قونصلیٹ نے جس محبت خلوس محنت سے اتنی پروقار تقریب کا اہتمام کیا وہ قابل دید و قابل ستائش ہے سب سے اہم بات جو دیکھنے میں آئی کہ تقریب میں بچوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو آج تک کسی تقریب میں اس سے پہلے دیکھنے کو نہ ملی۔ دراصل اس کی وجہ پاکستان سے ان کی والہانہ عقیدت ہے اہل وطن دفاع پاکستان کے اس جذبے کو تازہ رکھنے اور نئے عزم وتدبر کی صف بندی کے نتیچے ہرسال 6ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں جو ان کی حب الوطنی کا تقاضہ بھی ہے۔ آج یوم دفاع انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ہمارا دشمن بھارت ہمارے خلاف نئی جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں ہے اور دہشت گردی کے پیدا کردہ ہمارے اندر کے حالات کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ہماری سالمیت پر وار کرنے اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سازشوں میں مصروف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں پر اپنے مظالم ڈھارہا ہے ان بگڑتے حالات میں قونصلیٹ کی پاکستانیت سے بھرپور بھری تقریب جو جوش ولولے سے مزین تھی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسی تقریبات بین الاقوامی سطح پر منعقد کی جانی چاہئیں تاکہ دوسری قوموں کو بھی پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے اور انہیں یہ احساس دیالا جائے کہ پاکستان کی خطہ میں اہمیت سب سے بڑھ کر ہے مضبوط پاکستان دنیا میں امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اور خطہ میں خوشحالی برپا ہوسکتی ہے جس کے اثرات دنیا بھر میں پھیلں گے ہمارا دشمن بھارت دنیا میں پاکستان کے دہشت گرد ملک ہونے کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کررہا ہےاور پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کے لیے بھی سرگرم ہے حتیٰ کہ وہ مسلم ممالک کو پاکستان سے بدگمان کرنے کے لیے بھی سازشیں کررہا ہے اس کے توڑ کیلئے ہماری موثرسفارت کاری ہے ہمیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سرگرداں ہے جس کیلئے اس نے ہزاروں قربانیاں دیں تاکہ دنیا میں امن قائم ہو ہمیں اپنے مکار دشمن سے زیادہ بڑھ چڑھ کر سرگرم ہوکر دنیا کے سامنے حقائق رکھنا ہوں گے اس کے لیے ایسی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی جو ہرملک میں پارلیمنٹرین سے ملاقاتیں کریں اور انہیں اصل حقیقت سے آگاہ کریں۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں دنیا کے ہر کونے میں بین الاقوامی وعلاقائی سطح پر تاریخ کے دھارے کے تناظر میں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پر غورکریں اس کے بغیر ہم جذبہ ایمانی اتحاد اور تنظیم وجود میں نہیں لاسکتے ہیں مزید محنت کرنا ہوگی۔ ہمیں پاکستان سے گرفتار انڈین ایجنٹس کے خلاف بین الاقوامی سطح پر بات کرنا ہے اس کے لیے برمنگھم قونصلیٹ کی طرح تقریبات کا اہتمام کرکے جہاں دل دل پاکستان کی گرمی پیدا کرنا ہے وہاں وہ جوش اور جذبہ پیدا کرنا ہے جو 6 ستمبر 1965 کو دیکھنے کو ملا۔ قونصلیٹ کے قونصل جنرل سید معروف اور میاں عظمت نے ایک پرجوش مگر پروقار ہونے کے ساتھ ساتھ آبدیدہ اور فکر آمیز تقریب کا اہتمام کرکے یہ ثابت کردیا کہ اب بھی عوام کو گرمایا جاسکتا ہے، اب بھی ان میں ولولہ جوش پیدا کیا جاسکتا ہے اگر جذبے جوان ہوں تو ناممکن کو ممکن بنایاجاسکتا ہے۔ ویل ڈن قونصلیٹ برمنگھم۔


.