مقبوضہ کشمیر کی کہانی مودی کے رفیق کی زبانی

September 30, 2016

اکثر پاکستانیوں کی رائے ہے کہ بھارت کے ساتھ ایک اور جنگ نہیں ہونی چاہئے تاہم اگر جنگ ان پر مسلط کی گئی تو وہ ڈٹ کر لڑیں گے۔ دیوانگی کے عالم میں بھی وزیراعظم نریندر مودی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ براہ راست جنگ نہیں کریںگے۔ مسٹر مودی کے کچھ اقدامات جو انہوں نے پاکستان کو ’’سزا‘‘ دینے کیلئے اٹھائے ہیں وہ آشکار ہو چکے ہیں مگر ان سے دنیا کی نظر میں اس کی اپنی اسٹینڈنگ مزید ابتر ہوگئی ہے۔ سارک کے تابوت میں ایک بہت بڑی کیل بھارت نے ٹھونک دی ہےاور بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان کو اپنا ہمنوا بنا کر پاکستان میں نومبر میں ہونے والی سارک سمٹ کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اگر کوئی ایک ممبر بھی اس طرح کی حرکت کرے تو ایسی کانفرنس ملتوی ہوجاتی ہے۔ یقیناً پاکستان کو اس کانفرنس کے التوا کی وجہ سے سبکی ہوئی ہے مگر زیادہ نقصان بھارت کا ہوا ہے کیونکہ دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی امن اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے۔ ایسے ملک کو کیسے اپنے بین الاقوامی خواب پورے کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے جو چاہتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر بنے جو اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اس قدر دھمکی آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ بھارت کی اب یہ بھی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو بھی سبوتاژ کر دے۔
دراصل مسٹر مودی پاکستان کے خلاف مختلف قسم کے اقدامات اٹھا کر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ بھارت کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کا مسئلہ خود بخود ہی ختم ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ سات دہائیوں کے بعد بھی یہ مسئلہ دنیا کے امن کیلئے بہت بڑا ’’فلیش پوائنٹ‘‘ ہے بھارت نے کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کر دی ہے مگر آزادی کے متوالے اپنا حق مانگنے کیلئے ماضی کی نسبت زیادہ پرجوش اور ولولہ انگیز ہیں اور پیلٹ گنوں نے تباہی مچا دی ہے یہ صرف ہم ہی نہیں کہہ رہے بلکہ چند ہفتے قبل ہندی اور مراٹھی کے معروف صحافیوں سنتوش بھارتیہ اور اشوک وانکھڑے اور معروف تجزیہ کار پروفیسر ابھے دوبے نے اکٹھے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا۔ سنتوش بھارتیہ پارلیمان کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر خصوصاً مرکزی وزیر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) وی کے سنگھ کے قریبی مانے جاتے ہیں۔ افتخار گیلانی جو کہ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے داماد ہیں اور دلی میں موجود ہیں نے ایک اردو اخبار میں اپنے کالم میں لکھا ہے کہ واپسی پر سنتوش بھارتیہ نے اپنے پرانے رفیق مسٹرمودی کو ایک طویل خط لکھا ہے ’’.....میں وادی جا کر مضطرب ہو گیا ہوں۔ زمین ہمارے پاس ہے کیونکہ ہماری فوج وہاں ہے لیکن کشمیر کے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں ۔80سال کی عمر کے شخص سے لے کر 6سال تک کے بچے کے دل میں بھارتی نظام کے بارے میں بہت زیادہ غصہ ہے۔ اتنا غصہ ہے کہ وہ اس نظام سے جڑے کسی بھی شخص سے بات نہیں کرنا چاہتے، اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ ہاتھ میں پتھر لے کر اتنے بڑے سسٹم کا مقابلہ کر رہے ہیں، اب وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہیں جس میں سب سے بڑا خطرہ قتل عام کا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ کشمیر میں ہونے والے اس صدی کے سب سے بڑے قتل عام کو بچانے میں آپ کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہماری سیکورٹی فورسز اور ہماری فوج میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ جو بھی کشمیر میں نظام کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے اگر ختم کر دیاجائے تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہو سکتی ہے، ہمارا نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے دراصل وہ علیحدگی پسند تحریک نہیں ہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر 80سال کے ضعیف سے لے کر 6سال کا بچہ تک، آزادی، آزادی، آزادی کہے تو ماننا چاہئے کہ گزشتہ 60سالوں میں ہم سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں۔ سیکورٹی فورسز پیلٹ گن چلاتی ہیں لیکن ان کا نشانہ کمر سے نیچے نہیں کمر سے اوپر ہوتا ہے اس لئے دس ہزار لوگ زخمی پڑے ہیں۔ میں کشمیر کے دورے میں اسپتالوں میں گیا، مجھ سے دہلی میں کہاگیا کہ سیکورٹی کے چار پانچ افراد بھی زخمی ہوئے ہیں، یہ ہزاروں کی تعداد ہمارے پرچار کا نظام بیان کرتا ہے جس پر کوئی یقین نہیں کرتا اور اگر ہے تو ہم صحافیوں کو ان جوانوں سے ملوائیے جو ہزاروں کی تعداد میں کہیں زیرعلاج ہیں۔ ہم نے بچوں کو دیکھا جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں، جو کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ ہم تینوں کئی بار کشمیر کی حالت دیکھ کر روئے ۔۔۔ کشمیر کا ہر آدمی ہندوستانی نظام کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے۔ جس کے ہاتھ میں پتھر نہیں ہے اس کے دل میں پتھر ہے۔ یہ تحریک عوامی تحریک بن گئی ہے ٹھیک ویسی ہی جیسی 1942ء میں انگریزوں کے خلاف بھارت چھوڑو تحریک تھی یا پھر جے پرکاش تحریک تھی جس پر لیڈر کا کردار کم تھا اور لوگوں کا کردار زیادہ تھا۔۔۔کیا پاکستان اتنا بڑا ہے کہ وہ پتھر چلانے والے بچوں کو روز پانچ سو روپے دے سکتا ہے اور کیا ہمارا نظام اتنا خراب ہے کہ اب تک ایک شخص کو نہیں پکڑ پایا جو وہاں پانچ پانچ سو روپے بانٹ رہا ہے؟ جب کرفیو ہے، لوگ سڑکوں پر نہیں نکل رہے تو کون محلے میں جا رہا ہے پانچ سو روپے بانٹنے کے لئے۔ پاکستان کیا اتنا طاقتور ہے کہ پورے کے پورے 60لاکھ لوگوں کو بھارت جیسے 125کروڑ کی آبادی والے ملک کے خلاف کھڑا کر سکتا ہے؟ یہ بیانات اور پاکستان پر الزام لگانا ان کو مذاق لگتا ہے اور کشمیر کے لوگوں کو بھی یہ مذاق ہی لگتا ہے۔ ہمارے ساتھی راجیہ سبھا میں جانے یا اپنا نام صحافت کی تاریخ میں فرسٹ کلاس میں لکھوانے کے لئے اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ وہ ملک کے اتحاد اور سالمیت سے بھی کھیل رہے ہیں، لیکن تاریخ بے رحم ہوتی ہے، وہ ایسے صحافیوں کو محب وطن نہیں غدار مانے گی کیونکہ ایسے لوگ جو پاکستان کا نام لیتے ہیں یا ہر چیز میں پاکستان کا ہاتھ دیکھتے ہیں، وہ ذہنی طور پر ہندوستان کے لوگوں میں اور کشمیر کے لوگوں میں یہ جذبہ پیدا کر رہے ہیں کہ پاکستان ایک مضبوط، بڑا قادر اور بہت باریک بین ملک ہے۔ان لوگوں کو جب سمجھ میں آئے گا تب آئے گا یا سمجھ میں نہ آئے، مجھے اس سے تشویش نہیں ہے۔ میری تشویش یہ ہے کہ نریندر مودی کو تاریخ اس شکل میں دیکھے کہ انہوں نے کشمیر میں ایک بڑاقتل عام کروا کر کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ جوڑے رکھا، شاید وہ آنے والی نسلوں کے لئے بہت افسوسناک تاریخ ہو گی‘‘
’’کشمیر میں اس بار بقر عید نہیں منائی گئی کیا یہ ہندوستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پر طمانچہ نہیں ہے جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ ساری تحریک وہاں کی سیاسی قیادت کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کر گئی جس کشمیر میں 2014ء میں الیکشن ہوئے، لوگوں نے ووٹ ڈالے ۔۔ میں نے کشمیر میں دیکھا کہ کس طرح صبح آٹھ بجے سڑکوں پر پتھر لگا دئیے جاتے ہیں اور شام کو 6بجے وہی لڑکے جنہوں نے پتھر لگائے ہوئے ہیں اپنے آپ سڑکوں سے پتھر ہٹا دیتے ہیں۔ دن میں وہ پتھر چلاتے ہیں، شام کو وہ اپنے گھروں میں اس خدشے میں سوتے ہیں کہ نہ جانے کب سیکورٹی فورسز کے لوگ انہیں اٹھا کر لے جائیں، پھر وہ کبھی اپنے گھروں کو واپس لوٹیں یا نہ لوٹیں۔ ایسی حالت تو انگریزوں کے دور حکومت میں بھی نہیں تھی۔ ہر پیڑ پر ہر موبائل ٹاور کے اوپر ہر جگہ پاکستانی جھنڈا ہے۔ یہ کہتے ہوئے بہت سے لوگوں کے دل میں کوئی پشیمانی نہیں تھی کہ کشمیر کے لوگ ہندوستان کے نظام کو، اقتدار کو چڑانے کے لئے جب ہندوستان کی کرکٹ میں ہار ہوتی ہے، تو جشن مناتے ہیں …انہیں یہ لگتا ہے کہ ہندوستانی نظام کی کسی بھی کامیابی کو مسترد کر کے وہ اپنی مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا اس نفسیات کو ہندوستان کی سرکار کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کشمیر کے لوگ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے تو کشمیر کی زمین لے کر ہم کیا کریں گے‘‘۔


.