بھارت کا جنگی جنون۔قومی قیادت

September 30, 2016

مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے ہاتھوں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد بھارتی مظالم اور جنگی جرائم کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ جو ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ انڈیا اس صورتحال میں اس قدر حواس باختہ ہوچکا ہے کہ اُس نے جموں و کشمیر میں بھارتی پیراملٹری فورس کے مزید 102دستے تعینات کردیئے ہیں مگر اس کے باوجود وہاں گزشتہ 3ماہ سے کرفیو نافذ ہے۔ کشمیری عوام سراپا احتجاج ہیں اور پاکستانی پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکل کر کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگا رہے ہیں۔ مودی سرکار کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ وہ پاکستان کو مسلسل جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن دوسری طرف جموں و کشمیر میں عوامی احتجاج کو روکنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف بھی کررہے ہیں۔ ہندوستان جموں و کشمیر میں پاکستانی مداخلت کا بھونڈا الزام لگا رہا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بھارت کو اب اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ اُسے بالآخر جلد یا بدیر جموں و کشمیر سے اپنا ناجائز قبضہ ختم کرنا ہوگا۔ حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی کا یہ کہنا درست ہے کہ بھارت اُوڑی حملے میں اپنے 18فوجیوں کی ہلاکت نہیں بھول سکتا تو پھر ہم کیسے 6لاکھ کشمیریوں کی شہادتوں کو بھول جائیں۔ اُوڑی حملے کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ ہندوستان نے دنیا کی کشمیر کے معاملے پر توجہ ہٹانے کے لئے یہ ڈھونگ رچایا ہے اور یہ ’’را‘‘ کی ہی کارستانی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ محدود جنگ چھیڑ کر مقبوضہ کشمیر کے اندرونی حالات سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا تھا مگر اسے اپنے مکروہ عزائم میں کامیابی نہیں مل سکی۔ پاکستان،چین اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے آخرکار امریکہ کو بھی بھارتی مخالفت پر مجبور کردیا ہے۔ امریکی حکام نے واضح طور پر ہندوستان کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف محدود جنگ عالمی سطح پر بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ملک ہیں۔ یہ جنگ ایک مرتبہ شروع ہوگئی تو پھر روایتی جنگ نہیں رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق اپنے جنگی جنون پر یوٹرن لے لیا ہے۔ اب وہ ہندوستان میں غربت کے خلاف جنگ لڑنے کی بات کررہے ہیں۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ محدود جنگ کے ذریعے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا۔ ایک طرف اس کا خیال تھا کہ پاکستان سے مختصر دورانیے کی جنگ کی صورت میں وہ جموں و کشمیر کے حالات پر قابو پالے گا اور دوسری طرف وہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو بھی رکوا دے گا لیکن امریکہ اور یورپی ملکوں نے اس معاملے میں ہندوستان کا ساتھ نہیں دیا کیونکہ عالمی طاقتیں سمجھتی ہیں کہ اگر جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو دنیا میں تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوجائے گا جس کو روکنا پھر ناممکن ہوگا۔
جموں وکشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے۔ جب سے وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مقدمہ بھرپور انداز میں اٹھایا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی سیخ پاہیں کہ وزیراعظم نوازشریف نے حریت کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کا ذکر کیوں کیا۔ نریندرمودی اور سشماسوراج جواباً بلوچستان کے بارے میں خلاف واقعہ اور بلاجواز پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ انہیں پاکستانی حکومت پر بے بنیاد الزام تراشی کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک بھارت جموں و کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت سے محروم رکھے گا؟ بہرکیف اُسے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کاحق دینا ہوگا۔ بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے بھی اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہہ کر ایک اور نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے لاتعلقی ظاہر کرکے ہندوستانی ریاست کو دنیا کی نظروں میں ایک مذاق بنادیا ہے۔ اُوڑی کا واقعہ بھارتی مظالم کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ انڈیا میں کوئی بھی واقعہ ہوجاتا ہے تو وہ بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے پاکستان کے خلاف فوری الزام لگا دیتا ہے۔ ممبئی اور پٹھانکوٹ حملوں کا جھوٹا الزام بھی پاکستان کے سر تھوپنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اب اُوڑی حملے کا الزام بھی بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر لگا دیا ہے۔ اگر واقعی ہندوستان کے پاس اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت تھے تو پھر اُسے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کرنے چاہئے تھے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ انڈیا محض جھوٹ اور بہتان تراشی سے کام لے رہا ہے۔ پاکستان تو اقوام متحدہ اور امریکی حکام کو کل بھوشن یادیو اور دیگر بھارتی ایجنٹوں کے ٹھوس شواہد پیش کرچکا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے علاقوں کراچی، بلوچستان اور فاٹا میں خونی کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارتی دہشتگردی کو مکمل طور پرختم کرنے کے لئے ہمیں افغانستان میں ’’را‘‘ کے ٹھکانوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کے لئے افغانستان اور ایران کا راستہ استعمال کر رہا ہے۔ کل بھوشن یادیو بھی ایران کے راستے ہی بلوچستان میں داخل ہوا تھا۔ ایران اور افغانستان پاکستان کے دوست برادر مسلم ہمسایہ ممالک ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان سے روابط اور تعلقات کو زیادہ مضبوط اور مستحکم بنانا چاہئے کیونکہ افغانستان اور ایران کے ساتھ مل کر ہم بیرونی دہشتگردی سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ بھارت پاکستان دشمنی میں اندھا ہوچکا ہے اور دنیا بھر میں عالمی تنہائی کا شکار ہونے کے بعد اب اپنی خفت مٹانے کے لئے اوچھے اور منفی ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ پہلے نریندرمودی نے پاکستانی دریائوں کا پانی روکنے کی دھمکی دی اور اب نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ بھارت خطے میں امن نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کے جنگی جنون کے خلاف پاکستان کی قومی قیادت متحد ہوگئی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے بجاطور پر ٹھیک کہا ہے کہ ہندوستان تاریخی مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا چاہتا اور وہ خطے میں جنگی ماحول پیدا کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی بھارت کو آئینہ دکھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت نے جنگ چھیڑنے کی غلطی کی تو وہ اپنے وجود کو برقرارنہیں رکھ سکے گا اور بھارت میں کئی نئے پاکستان بنیں گے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ بھارتی جنگی جنون کے خلاف پورا ملک یک آواز بن چکا ہے۔ سراج الحق، بلاول بھٹو، عمران خان، مولانافضل الرحمان اور دیگر پارٹی سربراہوں کے بیانات سے قوم کو حوصلہ اور تقویت ملی ہے۔یہ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ملک میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیا جائے اور انتشار کی سیاست کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کاہی فرض ہے کہ وہ موجودہ اندرونی وبیرونی چیلنجوں کے پیش نظر محاذ آرائی کی سیاست سے گریز کریں۔ موجودہ منظر نامے میں پاکستان کا اندرونی طور پر مستحکم ہونا ازحد ضروری ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں جماعتیں 30ستمبر کو فیصل آباد اور لاہور میں کرپشن اور پانامالیکس کے حوالے سے بڑے عوامی جلسے کررہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پانامالیکس کا معاملہ بھی حکومت نے ہی خراب کیا ہے۔ اگر وزیراعظم نوازشریف اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے معاملے پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی پٹیشن سماعت کے لئے منظور کرلی گئی ہے۔ توقع رکھنی چاہئے کہ عدالت عظمیٰ پاناما لیکس کے ایشو پر انصاف کے تقاضے پورے کرے گی کیونکہ کرپشن فری پاکستان ہی بھارت کامقابلہ اچھے انداز میں کرسکتا ہے۔


.