سابق امریکی سفیر کی خطے کےبارے میںسفارشات

September 07, 2015

گزشتہ دنوں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر جو امریکہ کے اہم تھنک ٹینک ’’ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے صدر ہیں، نے مستقبل قریب میں چین کو دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت اور خطے میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بتایا جس کے بارے میں، میں اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کرچکا ہوں تاہم قارئین کے بے حد اصرار پر آج ’’پیشن فار پاکستان‘‘ جس کا اہتمام پاکستان کے ممتاز دفاعی تجزیہ نگار اکرام سہگل اور اورنٹ شیل فورم کے محمداظفر احسن نے کیا تھا، کے بارے میں ذکر کرنا چاہوں گا جس میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے خطے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور مستقبل میں چین، پاکستان، بھارت، ایران اور افغانستان کے خطے میں کردار کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی تھیں۔ ہفتے کی صبح ٹھیک 9 بجے ناشتے کی میٹنگ میں میرے علاوہ کئی سابق سفیر، کراچی میں متعین مختلف ممالک کے قونصل جنرل، معیشت دان، اسکالرز، کارپوریٹ سیکٹر کے سربراہان، میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت 100ممتاز شخصیات مدعو تھیں جبکہ سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر اسی روز صبح امریکہ سے کراچی پہنچے تھے۔ دوران گفتگو کیمرون منٹر نے بتایا کہ اکرام سہگل نے جب ان سے میٹنگ کیلئے مقام کے بارے میں پوچھا تو میں نے کراچی کا انتخاب کیا کیونکہ کراچی پاکستان کا معاشی و صنعتی حب ہے۔ کیمرون منٹر کے بقول مستقبل میں آبادی میں مسلسل کمی کی وجہ سے جاپان اور یورپ میں اونچی گروتھ کی امید کم ہے جبکہ امریکہ جس نے امیگریشن کھول کر مشرقی یورپ اور دیگر ممالک کے لوگوں کو پناہ دی ہوئی ہے، میں یہی لوگ امریکی آبادی میں توازن کیساتھ ساتھ معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں جس سے امریکی معیشت مستحکم ہے۔ اس موقع پر تقریب کے دوسرے مقرر اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر اور آئی بی اے کے ڈین ڈاکٹر عشرت حسین نے پاک چین راہداری منصوبے کی پاکستان اور خطے میں اہمیت کے حوالے سے بتایا کہ ہماری پالیسیاں بہترین ہوتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کے معاملے میں ہمارا ریکارڈ نہایت کمزور ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ پاک چین راہداری منصوبے پر عملدرآمد کرواکر اسے مطلوبہ وقت میں مکمل کرے لیکن اگر حکومت نے یہ نادر موقع گنوا دیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
سوال و جواب کے سیشن میں شرکاء نے امریکہ و بھارت میں بڑھتے ہوئے تعلقات، مغربی ممالک کے ایران کیساتھ جوہری معاہدے سمیت پاک، بھارت اور افغان تعلقات پر مختلف سوالات کئے جسکے جواب میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹرنے بتایا کہ دنیا میں کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں امریکہ کے دوسرے اہم ممالک کیساتھ یکساں مفادات ہیں اور پاکستان اپنے اہم جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ان ممالک میں سے ایک ہے جسے امریکہ کے علاوہ چین، روس، جاپان اور دیگر ممالک معاشی و سیاسی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ چین نے پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے پروجیکٹس ون بیلٹ ون روڈ کو پاکستان میں شروع کرنیکا اعلان کیا۔ کیمرون منٹر کا کہنا تھا کہ ایران کے امریکہ اور یورپی ممالک سے جوہری معاہدے کے بعد معاشی پابندیاں ختم ہونے سے ایرانی معیشت میں متوقع گروتھ خطے پر مثبت اثر ڈالے گی لیکن پاک، بھارت تنازعات اور سفارتی تنائو جنوبی ایشیاء کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، دونوں ممالک کو چاہئے کہ وہ اپنے تعلقات کو بہتر بناکر خطے کی خوشحالی کیلئے کردار ادا کریں جس سے نہ صرف خطے میں صنعتکاری و سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ ملازمتوں کے نئے مواقعوں سے غربت میں کمی کا فائدہ دونوں ممالک کے کروڑوں پسماندہ لوگوں کو پہنچے گا۔ سابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھارت اور افغانستان سے تجارتی سطح پر تعلقات بڑھاکر اپنے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانا چاہئے جس میں دونوں ممالک کے پرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی کے لوگ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انکے بقول آنے والی صدی جنوبی ایشیاء کی ہے جس میں چین کا کردار اہم ہوگا۔
قارئین! چین کی دنیا میں بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر آج میں چاہوں گا کہ چین کے عالمی معیشت میں کردار کے بارے میں ذکر کروں۔ انیسویں صدی میں افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے برطانیہ خود کو سکڑنے سے بچا نہ سکا۔ بیسویں صدی میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے نے وہاں معاشی بدحالیوں کو جنم دیا اور شکست کے نتیجے میں سوویت یونین کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔اکیسویں صدی میں امریکہ نے برطانیہ اور روس کے انجام سے سبق حاصل نہیں کیا اور افغانستان پر اپنے اتحادیوں کے ہمراہ لشکر کشی کردی، نتیجتاً کھربوں ڈالر کے نقصان کے بعد امریکہ و اتحادی ممالک افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے پر مجبور ہوئے۔ دنیا کے ہر ملک نے ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کے نام پر شروع کی گئی جنگ سے نقصان اٹھایا ہے لیکن چین وہ واحد ملک ہے جس نے دنیا کی ان تمام غلطیوں سے سبق حاصل کرکے اپنی ایسی پالیسیاں مرتب کیں جس نے چین کو سیاست، معیشت، ثقافت، تجارت اوربین الاقوامی تعلقات میں نمایاں مقام دلایا۔ انہی پالیسیوں کی ایک مثال ایشیائی ترقی و سرمایہ کاری بینک کا قیام ہے جو چین نے 15 اپریل 2015ء میں 57 ممالک کیساتھ مل کر قائم کیا جس میں 37 ممالک کا تعلق ایشیاء اور 20 ممالک کا تعلق دوسرے براعظموں سے ہے۔ 100 ارب ڈالر کے سرمائے میں چین کا سب سے بڑا حصہ 29.8% ہے جبکہ بھارت 8.4% حصے کیساتھ دوسرے نمبر پر ہے جس کے بعد روس، جرمنی، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، فرانس، انڈونیشیا اور دیگر ممالک ہیں۔ بینک کی سرمایہ کاری میں پاکستان کا حصہ 1.2% ہے جو حصے داری کے تناسب میں17 ویں نمبر پر ہے۔ چینی قیادت کے خیال میں دنیا کے اقتصادی نظام چلانے والے مالیاتی ادارے امریکہ، یورپ اور جاپان جیسے ملکوں کے مفادات کے تابع ہیں۔ ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے امداد کے نام پر دی جانیوالی رقوم اور اْن کی عائد کردہ شرائط سے دنیا غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہے، اس لئے ایشیائی ممالک کی معاشی ترقی و حوشحالی کیلئے ایشیائی ترقی و سرمایہ کاری بینک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی 2015ء میں آبادی 1.4 ارب تک جاپہنچی ہے۔ عالمی مندی کے باوجود چین نے رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں 7.3% معاشی گروتھ حاصل کی ہے۔ 2014ء میں چین کی جی ڈی پی 10.36 کھرب ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی 8,154 ڈالر ہے۔ چین کی معیشت میں سب سے زیادہ حصہ سروس سیکٹر 48.2%، دوسرا حصہ صنعت کا 42.6% اور تیسرا حصہ زراعت کا 9.2% ہے۔ 2014ء میں چین میں افراط زر صرف 2% تھا۔ چین کی ایکسپورٹ 2.34 کھرب ڈالر اور امپورٹ 1.96کھرب ڈالر ہے۔ 2014ء میں چین کی سب سے زیادہ تجارت 521 ارب ڈالر امریکہ سے، دوسرے نمبر پر 401ارب ڈالر ہانگ کانگ سے، تیسرے نمبر پر 312.55ارب ڈالر جاپان سے اور چوتھے نمبر پر 274.24 ارب ڈالر جنوبی کوریا سے ہوئی۔ پاکستان کی یہ خوش نصیبی ہے کہ دنیا کی سب سےبڑی معیشت چین کے پاکستان کیساتھ ابتداء سے ہی بہترین تعلقات ہیں اور چین پاکستان کی ترقی میں نہایت مخلص اور سنجیدہ ہے۔ حال ہی میں پاک چین اکنامک کاریڈور کے منصوبوں میں 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے لیکن بھارت اور دیگر ملک دشمن عناصر کی یہ کوشش ہے کہ پاک چین اکنامک کاریڈور کے منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچیں لہٰذا ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قومی مفاد کے ان اہم منصوبوں کو ہر صورت میں بروقت پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔اس کیساتھ ساتھ عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام قائم رکھیں جو ان منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے انتہائی ضروری ہے ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔