کمیونٹی کی شناخت اور سیاست ... گل و خار … سیمسن جاوید

October 25, 2016

سوشل ورکرز اور صحافی ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل نو اور اْسے متحرک رکھنے میں اہم تصور کئے جاتے ہیں ۔ ایڈگر منی سوشل ورکر ،مذہبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے علاوہ ایک ریسٹورنٹ بھی چلاتے ہیں اور ناصر سعید این جی اوزچلانے کے علاوہ ایک صحافی بھی ہیں،جواپنے کالموں میں Blasphamy Law میں پائی جانیوالی پیچیدگیوں کو زیر بحث لاتے ہیں ۔ ان کا نام دیگر کمیونٹیز کے علاوہ کرسچن کمیونٹی میں ایک جانا پہچانا ہے۔جب بھی پاکستان ،یورپ،امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک سے پاکستان نژاد مذہبی سکالرز،سیاسی یا سوشل شخصیات انگلینڈ تشریف لاتی ہیں ۔تو یہ دونوں حضرات ریسٹورنٹ میںخصوصی نشست کا اہتمام کرتے ہیںیوں وہ یہاں انگلینڈ میںبھی کافی ہاؤس کی یادکو تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں عالم لوگ بیٹھ کر اپنی علمیت اور خیالات کا اظہارایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاکستان سے تقدیس مآب ریٹائرڈ بشپ آف سیالکوٹ ایلون سموئیل اور آل پاکستان کرسچن لیگ کے کو ۔چیئرمین سرور بھٹی انگلینڈ تشریف لائے توحسب ِ روایت ان دونوںصاحبان، ایڈگر منی اور ناصر سعید نے ان کے اعزاز میں خصوصی نشست کا اہتمام کیاجس میں لندن اور اْس کے گرد نواح سے ادبی ومذہبی سکالرز،سیاسی و سماجی صحافی اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔مہمانوں کے تعارف کے بعدخیالات شیئر کرنے کا وقت آیا۔تو ایک نوجوان جوآئندہ لوکل الیکشن میں بحیثیت امیدوار برائے کونسلر الیکشن لڑانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ انگلینڈ میںمرکزی چرچ کو چھوڑ کر کچھ پاسٹر حضرات دو یا چار خاندانوں کو ساتھ ملا کر اپناالگ ایک نیا چرچ شروع کر لیتے ہیںجس سے قومی یکجہتی کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ پہلے ہی ہم انگلینڈ میں بہت کم تعداد میں ہیںاور ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔یہ صورت حال ہمارے لئے لمحہِ فکریہ ہےایسی صورت حال میں ہم اپنے حقوق کے لئے کیسے آواز بلند کرسکتے ہیں۔ کسی بھی کمیونٹی کواپنی شناخت کے لئے ملکی نظام کا حصہ بننے اور اپنی شناخت کے لئے سیاست میں حصہ لینا ضرور ی ہے ۔چند مسیحی ہی باقاعدہ سیاست کا حصہ ہیں،باقی تو سب ووٹر بن کر رہ گئے ہیں۔ایک صاحب جن کا لیبر پارٹی سے بڑا پراناتعلق ہے ، کہنے لگے کہ مجھے جب بھی مسیحی کمیونٹی میں بولنے کا موقع ملتا ہے تو میں ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ ہمیں یوکے میں رہتے ہوئے ملکی سیاست کا حصہ بننا ہوگاتاکہ ایوان میں ہماری آواز بلنداورموثر ہو۔جب ہمارے مسائل کم ہونگے تو ہی وسائل زیادہ ہو ں گے۔ تبھی ہم دوسروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرسکیں گے۔ جناب مورس نے آل پارٹی کانفرنس) (APC کا حوالہ دیا ،جنہوں نے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مختلف پارٹیزکے ایم پی ایز کی مدد سے آل پارٹی کانفرنس کا اجراء کیا ہے ،جومختلف زاویوں پر کام کر رہی ہے ۔جس کی بدولت صورت حال کافی حدبہتر ہوئی ہے۔ ایک مذہبی رہنما موقع ملتے ہی کہنے لگے کہ میں نے ایک بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ یہاں کوئی ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںجوبہت بڑا المیہ ہے۔حتی ٰکہ مذہبی ،سماجی اور سیاسی رہنمابھی ایک دوسرے سے متفق نہیں۔تو اس طرح ہم کیسے متحدہو سکتے ہیں۔ زور اسی بات پر زیادہ رہا کہ ہمیں چرچ سرگرمیوں اور سیاست کا حصہ بننا ہوگا۔ کارکن بننا ہوگا ووٹر نہیں اور عملی سیاست میں آگے بڑھنا ہوگا۔یہ سب اپنی جگہ مگر ذرائع ابلاغ کی کمی کسی نے بھی محسوس نہیںکی اور نہ ہی اس پر بات کی۔ ذرائع ابلاغ کسی بھی کمیونٹی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جو عوام کی ذہنی، فکری اور سیاسی تربیت بھی کرتے ہیںگویا یہ عوام میں آگہی کا ایک معتبر ذریعہ ہے جس کی اہمیت کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یوکے میں ایک مسیحی ٹی وی چینل ضرورہے جو خالصتاً مذہبی ہے ۔مسیحیوں کی روحانی پرورش کا کام بخوبی سر انجام دے رہا ہےمگر مذہبی سرگرمیوں کی کوریج کے لئے چینل والوں سے گھنٹے خریدنے پڑتے ہیںجو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ایسے ٹی وی چینلز کی اشد ضرورت ہے جو کمیونٹی کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ عملی ترقی کے لئے بھی کوشاں ہو۔اسی ضرورت کے تحت پاکستان میں مختلف کلیسیاؤںکی کچھ شخصیات نے کیبل نیٹ ورک کے سیٹلائٹ ٹی وی چینلز شروع کئے،جو مسیحی آبادی تک محدود ہیں اور مسیحیوں کو اپنی مذہبی تعلیم سے روشناس کر رہے ہیں۔ان چینلز کی تعداد 12 ہے۔


.