یہیں پر سارا حساب ہوگا

October 26, 2015

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ احتساب کا نظام نہ ہونا ہے ۔ یہ دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ دہشت گردی اسلئے پروان چڑھی ہے کہ احتساب کا نظام نہیں ہے ۔ کرپشن ، لوٹ مار اور بری حکمرانی نے اشرافیہ کے ایسے گروہ پیدا کر دیئے ہیں ، جو اپنے آپ کو احتساب سے ماوراء سمجھتے ہیں ۔ پاکستان شاید پہلا ملک ہے جہاں وہ احتساب کا نظام قائم ہی نہیں ہونے دیتے اور اسکے قیام کی مخالفت کرتے ہیں۔ قانون صرف کمزور طبقات کو مزید کچلنے کا ہتھیار بن گیا ہے ۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم کس قدر خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں ۔ اس صورت حال نے ہماری بقا کا سوال پیدا کر دیا ہے ۔
دنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے یا جتنے بھی نظام وضع کیے گئے ، ان کا بنیادی مقصد انسانی ذات کی بہتری اور انسانی سماج کو اعلیٰ اقدار سے مالا مال کرنا ہے ۔ دساتیر ، قوانین ، میثاق اور ضابطے بھی انسان کو آزادی ، امن اور انصاف فراہم کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں ۔ جو نظام اور دساتیر انسانوں کے مسائل حل نہ کر سکیں ، وہ نہ صرف خود ختم ہو جاتے ہیں بلکہ ان کا اطلاق کرنیوالی ریاستوں کا وجود بھی مٹ جاتا ہے ۔ تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ یہ قانون فطرت ہے اور آج بھی لاگو ہے ۔ آئین اور قانون انسانوں کیلئے ہوتے ہیں ۔ انسان آئین اور قانون کیلئے نہیں ہوتے ہیں ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ریاست ، مذہب ، نظام ، آئین اور قانون کے ہر معاملے کو لوگوں پر مقدم رکھا ہے ۔ میں آئین اور قانون کی عمل داری اور انصاف کے ناقابل تنسیخ ہونے پر یقین رکھتا ہوں لیکن میرا انسانی ذات پر یقین اس سے زیادہ ہے ۔ میں جمہوریت کو اس عہد کا سب سے بہتر نظام سمجھتا ہوں لیکن جمہوریت سے عام لوگوں کو انکے حقوق نہ ملیں تو ایسی جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں ۔ جمہوریت گڈ گورنس کا نام ہے کرپشن‘ لوٹ ماراور ’’ چوروں کی مفاہمت‘‘ کا نام نہیں۔ جمہوریت امریکہ اور مغربی ممالک میں بھی ہے ۔ ایک طرح کی جمہوریت روس اور چین میں بھی ہے لیکن جہاں کوئی نظام انسانیت کی بھلائی کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا ، وہاں وہ نظام بدل دیا جاتا ہے ۔ اسکی مثال چین کی کمیونسٹ پارٹی ہے ۔ یہ ماؤزے تنگ والی پارٹی نہیں ہے ۔ آج کی کمیونسٹ پارٹی نے عہد نو کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو بدل دیا ہے ۔ انسانی ذات کی بہتری کیلئے مذہب میں بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق اجتہاد اور اجماع کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی ریاست ، نظریہ ، مذہب ، دستور اور قانون کے موثر اور متعلق ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس سے عام انسان کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ جمہوریت یا کوئی بھی نظام جزا و سزا کے بغیر نہیں چل سکتا ۔ ہمارے ہاں عام تاثر یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاست دانوں نے خاص طور پر گزشتہ 15سال کے دوران اس ملک کو کرپشن ، لوٹ مار اور بری حکمرانی کے ذریعے کھوکھلا کر دیا ہے ۔ اعدادو شمار پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ ملکی اور غیر ملکی کرنسی میں کئی ہزار ارب کی رقوم ملک سے باہر منتقل ہو چکی ہیں ، جو کرپشن اور لوٹ مار سے حاصل کی گئیں ۔ عام آدمی بھی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے سیاست دان کرپٹ ہیں اور وہ تقریباً ہر سیاسی جماعت میں ہیں۔ ابھی تک صرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے کچھ کرپٹ لوگوں کو پارٹی سے نکالا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ’’ آئی واش ‘‘ ہو لیکن پھر بھی ایک بہتر اقدام ہے ۔ ورنہ دوسری سیاسی جماعتوں نے تو کرپٹ لوگوں کو سینے سے لگا رکھا ہے ۔
آج کل اس بات پر بہت واویلا مچا ہوا ہے کہ یکطرفہ احتساب ہو رہا ہے اور احتساب کے قوانین کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس بات میں وزن بھی ہو سکتا ہے لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی احتساب سے بچنا چاہتا ہے ۔ کوئی اپنے آپ کو اسلئے احتساب سے ماوراء سمجھتا ہے کہ وہ لوگوں کے ووٹ لیکر آیا ہے ووٹ لینے والا ہو یا صدر یا وزیر اعظم کوئی یہ کہہ کر بچ نہیں سکتا کہ احتساب ایک پارٹی کا ہو رہا ہے یا ایک صوبے کا آج ان کی کل سب کی باری ہے اور حکومت میں ہے تو کوئی اس لئے اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر قرار دیتا ہے کہ وہ اپوزیشن میں ہے اور اس کا احتساب جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے ۔ کوئی وطن کے دفاع کے نام پر مقدس گائے ہے اور کوئی نظریہ پاکستان کے محافظ کی حیثیت سے اور کوئی مذہبی پرچارک کے طور پر یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرے ، اس سے پوچھنے والا کوئی نہ ہو ۔ کوئی اپنی عوامی مقبولیت اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر یہ تاثر دیتا ہے کہ اگر اس پر ہاتھ ڈالا گیا تو سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا ۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ عدل کے نظام سے وابستہ ہے اور اسکی ذات پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی ہے ۔ کسی نے خوف و دہشت کی بنیاد پر اپنے آپ کو سارے زمانے کا محتسب بنا لیا ہے ۔کہیں احتساب کے نام پر لوٹ مار ہو رہی ہے اور کہیں کرپشن کے خلاف مہم کی آڑ میں کرپشن کی جا رہی ہے ۔ غرض اس ملک میں بلا امتیاز اور بلا تفریق احتساب کا نظام نہیں بن سکا ہے ۔ اس میں ان غیر سیاسی عناصر کا بھی قصور ہے ، جنہوں نے ماضی میں ’’ ایبڈو ‘‘ اور ’’ پراڈا ‘‘ جیسے احتساب کے سیاہ قوانین کو ایماندار سیاست دانوں کیخلاف استعمال کیا اور ان سیاست دانوں کا بھی قصور ہے ، جنہوں نے سیاست کو دولت کا ذریعہ بنایا اور قیام پاکستان کے بعد شروع ہونیوالی بدترین لوٹ مار کے بڑے حصہ دار بن گئے ۔ جو لوگ سیاست ، عہدے ، حیثیت ، مرتبے ، اختیار اور لوگوں میں عزت و احترام کو دولت کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں اور ایک یا کسی دوسری وجہ سے بلا امتیاز احتساب کے نظام کو کمزور کرتے ہیں ، انہیں اندازہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک ، اپنی قوم ، اپنی نسلوں اور خود اپنے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں ۔ بقول حبیب جالب
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ ، کوئی شبنم ، کوئی مہتاب جبیں تھا
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بڑے بڑے ظالم اور جابر حکمرانوں اور دولت مند لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں ۔ تاریخ ان لوگوں سے عبارت نہیں ہے ، جو طاقت اور دولت کے حصول کیلئے ظلم و جبر اور ناانصافی کا سہارا لیتے ہیں ۔ تاریخ ان لوگوں سے عبارت ہے ، جنہوں نے انصاف کیا اور لوگوں کو انصاف دلانے کیلئے قربانیاں دیں ۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کا لوگ اس لئے ساتھ دیتے رہے کہ اس کے بھٹو شہید ، بے نظیر شہید اور کارکنوں نے قربانیاں دیں ۔ آئین اور قانون صرف غریبوں کیلئے ہونگے تو ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ وہ انہیں تسلیم نہیں کرینگے ۔ پاکستان کے لوگ احتساب اور انصاف کے نظام سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں ۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جہاں بلا امتیاز احتساب کا نظام قائم نہیں ہوتا ، وہاں لوگ خود احتساب کیلئے نکل آتے ہیں اور انقلاب برپا کرتے ہیں ۔ شاہ ایران ، قذافی اور حسنی مبارک کی حالیہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی وجہ سے احتساب سے بچ نکلے گا تو یہ اس کی بھول ہے ۔ احتساب کے حامی اور احتساب کو انتقامی کارروائی قرار دینے والے دونوں احتساب کا نظام نہیں بننے دے رہے ہیں ۔ میڈیا میں کرپشن کی داستانوں سے کرپشن ختم نہیں ہو گی ۔
اس نے مزید پیچیدگیاں پیدا کی ہیں ۔ لوگ حقیقی احتساب چاہتے ہیں ۔وہ حکمرانوں ، سیاست دانوں ، سول اور ملٹری بیورو کریسی ، عدلیہ ، میڈیا ، تاجروں اور صنعت کاروں ، مذہبی پیشواؤں ، خوف و دہشت کے نام پر راج کرنے والوں سب کا احتساب چاہتے ہیں اور احتساب آئی واش کے طور پر نہیں بلکہ وہ لٹیروں کو کیفرکردار تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کا ہیرو وہ ہو گا ، جو لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گا اور ہر طرح کی کرپشن کرنے والوں کا احتساب کریگا ۔ بلا امتیاز احتساب سے ہی اس ملک ، اسکے ریاستی اداروں ، جمہوریت اور سیاست کی بقا ہے ۔ اب زیادہ دیر احتساب کو مذاق نہیں بنایا جا سکتا ۔
جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی
یہیں پہ عذاب و ثواب ہو گا
یہیں پہ اٹھے گا شور محشر
یہیں پہ روز حساب ہو گا