امریکی اخبارات!

November 15, 2015

پربتوں، وادیوں، جھرنوں کے شاعر احمد ندیمؔ قاسمی کہتے ہیں؎
جوئے کہسار میں پتھر کو بنا کے زینہ
پنڈلیاں کھول کر اتری ہیں حسینائیں چند
کس کو اپنائوں، کسے نظرانداز کروں
ایک ہی صف میں ہیں گویا کہ تمنائیں چند
ایک ہی وقت ساری آرزوئیں پوری ہو نہیں سکتیں، جو بچ رہیں وہ حسرت بن کر پیچھا کرتی ہیں۔ یہی حالت ہفتے میں ایک کالم لکھنے والوں کی ہے۔ اللہ بھلا کرے وزیراعظم میاں نواز شریف کا وہ ہر ہفتے اتنے موضوعات پیدا کردیتے ہیں کہ ہفتے کے آخر میں کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کس کو اپنائوں کسے نظر انداز کروں؟
سارے موضوعات، سینے میں پلنے والی تمنائوں کی طرح ہیں جو نظر انداز ہوئے وہ نازک آبگینوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔ 9ومبر کے نیویارک ٹائمز کا اداریہ، میاں صاحب کا اپنی حکومت کی دیانتداری پر خطاب، فوجی ترجمان کی طرف سے اچھی حکمرانی کی خواہش کے جواب میں حکومتی ترجمان کا جواب آں غزل، ایسے موضوعات ہیں کہ کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ قسمت کا لکھا ہے۔ اسلئے کچھ تمنائوں کو حسرت بننا ہی ہوگا۔ نوازشریف صاحب کا اپنی حکومت کی دیانتداری پر خطاب، کیا خوب خیال تھا کہ؎
حسرت کی غزل جس نے سنی اس نے کہا
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
35 برس کی حکمرانی میں پہلی مرتبہ سرکاری پروجیکٹ میں کک بیکس، کمیشن نظر انداز ہوگیا اب اس ناکردہ گناہ کی حسرت کے داد طلب ہیں۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد فوجی ترجمان کے بیان نے میاں صاحب کے سینے کو تازہ ولولوں سے بھر دیا۔ صوفی شاعر اصغر گوئنڈدی کے بقول؎
مار ڈالے گی مجھے عافیت کنج چمن
جوش پرواز کہاں، جب کوئی صیاد نہ ہو
عافیت میں رہ نہیں سکتے، زندگی ان کی ایک ہنگامے پر موقوف ہے، نغمہ شادی نہیں تو نوحہ غم ہی سہی۔ اب گھر کے ہنگاموں سے نکلو تو باہر امریکہ نے طوفان اٹھا رکھے ہیں۔ امریکہ خود تو دوردراز عافیت کے آہنی حصار میں ہے لیکن اسے گود لئے ’’بچوں‘‘ کی سلامتی ڈرائونے خواب بن کر ستاتی ہے۔ پہلے اکلوتے اسرائیل کی فکر تھی اب اس گہوارے میں نومولود انڈیا کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ’’چاند طلب‘‘ لاڈلے اسرائیل کیلئے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو دشمن بنایا، پورے مشرق وسطیٰ کو زیر و زبر کر ڈالا۔ اب انڈیا کی فکر ستاتی ہے، اس کی محبت میں پاکستان کے خلاف سازش اور دھمکی، چین کو گھیر لینے کی ناکام منصوبہ بندی۔امریکی حکمران اور اہلکار ہماری حکومتوں سے جو کہیں، سنیں وہ اپنی جگہ۔ امریکی میڈیا جو کبھی اپنے حکمرانوں کی رہنمائی کرتا تھا اور کبھی سرزنش بھی، اب پستی کی اس سطح تک پہنچ گیا کہ 9/11کے بعد اپنی حکومت کے ظلم و جور اور من مانی پر ’’منقار زیر پر رہا اب رفتہ رفتہ غیر ملکی لابیوں کے زیر اثر فرمائشی اداریئے لکھنے لگا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے خصوصاً سی آئی اے کیا کم تھی کہ اب بااثر اخبارات بھی اس میں شامل ہونے لگے ہیں۔تاریخ کا زمانہ شروع ہونے سے اب تک فلسفیوں کے نظریات پر سلطنتیں تشکیل پایا کرتیں اور دانشور رہنمائی فراہم کرتے۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ امریکہ کے خفیہ ادارے فلسفی پیدا کرنے لگے ہیں۔ اپنا فلسفہ تشکیل دے کر تہذیبو ں کا تصادم چاہتےہیں۔ بڑے بڑے مشہور اخبارات اور انکے دانشور اداریہ نویس غیر ملکی چغل خوروں کی لکھی ہوئی کہانیوں کو اپنا اداریہ کہہ کر ’’مکرر‘‘ شائع کرتے ہیں کہ پاکستان کو متاثر کریں، امریکی حکومت پر دبائو ڈالیں تاکہ وہ پاکستان کو مجبور کرے کہ دشمن ’’انڈیا‘‘ کے بموں کو راہ دینے کیلئے اپنے ہتھیار کند کردیں۔ جوہری ہتھیار، تیز رفتار ایٹمی میزائل اپنی جگہ 80ءکی دہائی میں امریکہ پاکستان پر دبائو ڈالتا رہا کہ وہ پرانے ٹینکوں کو مرمت کر کے ’’حیدر‘‘ نہ بنائے، ’’الخالد‘‘ ٹینک کی پیداوار روک دے تو امریکہ اپنے ٹینک پاکستان کو سستے داموں دیا کرے گا۔ پاکستان مان کر نہ دیا، اس نے اپنا سفر جاری رکھا اب وہ دفاعی کفالت کی منزل کے قریب ہے۔ آج سے چند سال پہلے امریکہ سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ ’’نیوز ویک‘‘ کے ٹائٹل پر ’’خوشاب‘‘ کے ایٹمی ری ایکٹر کی تصویر چھپی تھی جس میں دکھایا گیا کہ پاکستان اس مقام پر تین ایٹمی ری ایکڑ تعمیر کر چکا ہے اور ممکنہ حد تک چوتھے کی تعمیر جاری ہے۔ یہ ری ایکٹر پاکستان اپنے بھروسے پر بنارہا ہے، اسلئے یہ کسی بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی نگرانی میں نہیں آئینگے۔ اسلئے پاکستان یہاں سے اتنا پلوٹینیم حاصل کرلے گا جس سے وہ ایٹمی ہتھیاروں کو تیز رفتار ترقی دے سکے۔ اس ہفت روزے کی اسٹوری کو بنیاد بنا کر ایک بھارتی ٹی وی چینل نے کئی گھنٹے کا پروگرام پاکستان کی جوہری صلاحیت کے بارے میں نشر کیا تھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اور دور مار میزائل اب صرف انڈیا کیلئے ہی نہیں پوری دنیا کیلئے خطرہ ہیں۔ پاکستان اگلے دس برس میں فرانس سے بھی آگے نکل جائیگا جو اس وقت تیسری بڑی جوہری طاقت ہے۔ روس اور امریکہ کے بعد پاکستان کے پاس سب سے زیادہ اور جدید ایٹمی ہتھیار ہونگے امریکہ اور روس سمیت پاکستان کا ایٹمی پروگرام سب سے تیز رفتار ہے۔ اس کے چھوٹے ایٹمی ہتھیار انڈیا کیلئے فوری اور حقیقی خطرہ ہیں، اس کے میزائل انڈیا کے ہر کونے کھدرے کو نشانہ بنا سکتے ہیں، چھوٹے ہتھیار تمام فوجی تنصیبات کو تباہ کردیں گے اور بھارتی فوج کو پاکستانی سرحدوں سے دور رکھیں گے پاکستان ایٹمی جنگ کی صورت میں دوسرا حملہ کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر چکا ہے۔ اس نے انڈیا کے روایتی ہتھیاروں کی برتری اور مسلح افواج کی تعداد کو چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے بے اثر کر دیا ہے۔ پاکستان دنیا میں دوسرا ملک ہے جسکے پاس ’’اسمارٹ‘‘ بم موجود ہیں، جنہیں میزائل، جنگی طیاروں کے علاوہ غیر روایتی ذریعے سے بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ کئی سال پہلے انڈیا کے ’’چینل‘‘ پر ایک پروگرام میں کہا گیا تھا وہ سب کچھ9نومبرکے نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ کے لکھے گئے مضمون میں دہرا دیا گیا ہے۔ اکتوبر میں وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے پہلے امریکی اخبارات، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے، میزائلوں کی رینج کم رکھنے، چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری روکنے جیسےبین الاقوامی ایٹمی معاہدوں پر یکطرفہ دستخط کرنے پرمجبور کرنے کیلئے امریکی حکومت پر دبائو ڈال رہے تھےکہ وہ پاکستان کو ان پابندیوں کیلئے تیار کرے تب امریکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے ’’دو ٹوک‘‘ کہہ دیا کہ پاکستان نے چھوٹے ایٹمی ہتھیار حملہ آور ہونے کیلئے نہیں بلکہ اپنے دفاع کیلئے بنائے ہیں، اگر پاکستان کو جارحیت کا نشانہ بنایا گیا تو حملہ آور فوج جو پاکستان کے اندر داخل ہوگی، ہم انہیں اپنی سرحدوں کے اندر ان کیخلاف استعمال کریں گے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ ہتھیار جارحیت کیلئے نہیں بلکہ اپنے خلاف ہونے والی جارحیت کو روکنے کیلئے بنائے گئے ہیں، یہ جنگ نہیں بلکہ امن کے ہتھیار ہیں جو جنگ باز قوموں کو جنگ سے باز رکھ سکتے ہیں۔
جس دن یہ مضمون شائع ہوگا پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف امریکہ کے چار روزہ دورے پر روانہ ہو چکے ہونگے۔ عین اس دورے کے شروع ہوتے وقت امریکی اخبارات میں ایسے مضامین کی اشاعت سے ان کے مقاصد واضح ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی جمہوری حکومت ہو یا دفاعی اداروں کے سربراہ کوئی ہتھیار پھینکنے اور دشمن کیلئے اپنے ہاتھ کاٹ دینے پر تیار نہیں ہوسکتا امریکہ اگر شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر پاکستان کو جوہری قوت تسلیم نہ کرے تب بھی پاکستان ایک طاقت ور ایٹمی ملک ہے اور رہے گا۔ امریکہ اور یورپ کا ہمارے دشمنوں کی ترغیب پر برتا جانے والا مخالفانہ رویہ اور دہرا معیار ہماری راہ کھوٹی نہیں کرسکے گا۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان اپنے دفاع کیلئے آج جس مقام تک پہنچا ہے یہ ان کی مرضی اور تعاون سے نہیں ہوا بلکہ ہماری دفاعی خود انحصاری کا بہترین زمانہ وہی ہے جب امریکہ اور یورپ نے ہمارے خلاف پابندیاں لگائیں۔ ایک مرتبہ پھر اس عمل کو دہرانے سے ان کیلئے بہتر نتائج نہیں نکلیں گے!!!