امرتسر کانفرنس ... بھارت کی معروضی حقائق سے دوری

December 06, 2016

امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا اصل مقصد افغانستان میں پائیدار امن یقینی بنانے کے لئے مثبت تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرکے مسئلے کا قابل عمل حل تلاش کرنا تھا مگر بھارت اور اس کی شہ پر افغانستان نے جسے در پردہ امریکہ کی آشیر باد بھی حاصل ہے، اسے پاکستان کے خلاف الزامات کا پلیٹ فارم بنانے کی پوری لیکن ناکام کوشش کی جس کی وجہ سے اپنے اصل ایجنڈے کے حوالے سے تو کانفرنس زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی، البتہ امن پسند شرکا کے دبائو کے باعث ایک ایسا مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں کامیاب ہو گئی جس پر محتاط الفاظ میں اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اعلامیہ میں خطے کی سکیورٹی صورت حال اور تحریک طالبان پاکستان سمیت مختلف دہشت گرد گروپوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی پرتشدد کارروائیوں پر گہری تشویش کا اظہارکیا گیا۔ اقوام متحدہ کے منشور پرعمل دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کے عزم کا اعادہ، باہمی اختلافات کے پرامن حل اور کسی بھی ملک کی سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کی حمایت کی گئی۔ 30 برس سے افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستان اور ایران کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان سے کہا گیا کہ وہ مہاجرین کی رضا کارانہ، محفوظ، بتدریج اور باوقار واپسی تک میزبانی جاری رکھیں۔ کانفرنس سے خطاب میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے خلاف اپنے بغض کا بھرپور اظہار کیا اور اس پر بالواسطہ یا بلاواسطہ دہشت گردی کی سرپرستی کے بے سروپا الزامات لگائے۔ پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے نہایت تحمل سے کام لیتے ہوئے جوابی الزام تراشی کی بجائے ان اسباب و علل کا احاطہ کیا جو افغانستان اورخطے میں ہونے والی دہشت گردی کے انسداد میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ کانفرنس میں شریک دوسرے ممالک خصوصاًروس کے نمائندے نے افغان صدر اور بھارتی وزیراعظم کی پاکستان پر تنقید مسترد کردی، سرتاج عزیز کی تقریر کو دوستانہ اور مثبت قرار دیا اور کہا کہ ہمیں الزامات کا کھیل نہیں کھیلنا چاہیئے۔ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے مشیرخارجہ کے ساتھ پروٹوکول کے حوالے سے سکیورٹی کے نام پر جو سلوک روا رکھا گیا وہ سفارتی اور اخلاقی آداب کے سراسر منافی تھا۔ بھارتی حکومت نے انہیں شیڈول کے مطابق پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی سکھوں کے متبرک مقام گولڈن ٹیمپل جانے دیا گیا نہ میڈیا کے نمائندوں کو ہوٹل میں ان سے ملنے دیا گیا۔ چنانچہ سرتاج عزیز نے وطن واپسی پر پریس کانفرنس منعقد کی اور امرتسر کانفرنس کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے، ان کا کہنا تھا کہ بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل اور پاکستان سے مذاکرات کے لئے عالمی دبائو ہے اس لئے وہ مخاصمانہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ ہم ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت نہ کریں تاکہ وہ پاکستان کے تنہا ہونے کا تاثر دے سکےجسے ہم نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مشیر خارجہ نے درست کہا کہ امرتسر کانفرنس میں بھارت سے کشیدگی اور تنائو کے باوجود شرکت افغانستان میں امن و استحکام کے لئے پاکستان کے عزم کا اظہار تھا۔ کانفرنس میں دوسرے ملکوں کے مندوبین کی طرح بھارت اور افغانستان کا لہجہ بھی محاذ آرائی کی بجائے مفاہمانہ ہوناچاہیئے تھا اورالزام تراشی کی بجائے مثبت اقدامات پر توجہ دینی چاہیے تھے بھارت نے جورویہ اپنایا وہ اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ خود بھارت میں بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں بھارتی حکومت کو ادراک ہونا چاہیئے کہ پاکستان بھارت اور دہشت گردی کے درمیان ایک بفر سٹیٹ ہے۔ افغانستان سے اٹھنے والی شدت پسندی کی لہر کو پاکستان نے ہی بھارت پہنچنے سے روکا ہوا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے گا اور کابل حکومت بھی پاکستان کی طرح صدیوں پرانے تاریخی مذہبی اور تمدنی رشتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے معروضی حقائق کا ادراک کرے گی اور بھارتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہو گی۔

.