ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اور بھارتی ہٹ دھرمی!

December 09, 2016

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس نے مودی سرکار پاکستان دشمنی اور ہٹ دھرمی کا پول کھول دیا ہے۔ امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر پاکستانی مشیر خارجہ سے بدسلوکی اور پاکستانی عملے سے بدتمیزی کر کے بھارت نے عالمی سفارتی آداب کی دھجیاں اڑا دی گئیںاور طے شدہ پریس کانفرنس سے بھی روک دیا گیا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مقصد افغانستان میں پائیدار امن کو یقینی بنانا تھا۔ بھارت کے ساتھ کنٹرول لائن پر کشیدگی کے باوجود حکومت پاکستان نے خطے کے وسیع تر مفاد میں کانفرنس میں شریک ہونے کا بظاہر مشکل فیصلہ کیا تھا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت اور کنٹرول لائن پر مسلسل بلااشتعال گولہ باری کی وجہ سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستانی حکومت احتجاجاً ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا بائیکاٹ کرے گی۔ بالآخر امریکی دبائو پر پاکستان کو مجبوراً بھارت میں منعقدہ اس کانفرنس میں شریک ہونا پڑا۔ سرتاج عزیز کے دورے سے پاکستان کی عزت اور نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہماری بدنامی ہوئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے بیان سے تو ہماری پوزیشن مزید خراب ہوئی ہے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ ہندوستان افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ افغان حکومت کو استعمال کر رہا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر یہ بے بنیاد الزام لگایا ہے کہ پاکستان طالبان کو پناہ دے رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی ختم کیے بغیر پاکستان کو امداد دینا بے فائدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اشرف غنی نے بھارتی زبان بول کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ انڈیا کی طرف واضح جھکائو رکھتے ہیں۔ انہوں نے افغان مہاجرین کی میزبانی اور قیام امن کے لئے پاکستان کے احسانات بھلا کر ہمیں یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اب ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں روس اور چین نے بھی بھارت اور افغانستان کے الزامات مسترد کر دیئے جبکہ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ میں بھی افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے پر پاکستان اور ایران کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو امریکہ نے خود یہ حالات پیدا کئے ہیں اور اُس نے ہی دانستہ طور پر بھارت کو افغانستان کے معاملات میں شامل کیا ہے۔ حالانکہ افغانستان کے ساتھ بھارت کی تو سرحد بھی نہیں ملتی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کو افغانستان کے حوالے سے اسٹیک ہولڈر بنا کر جنوبی ایشیا میں امن کے لئے مزید خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ اب پاکستان بھی مجبور ہو گیا ہے کہ وہ افغانستان کے امن کے لئے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارت کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو طے کرے۔ روس اور چین تو خطے کی بڑی طاقتیں ہیں ان کے تعاون سے افغانستان میں یقیناً امن قائم کرنے میں مدد ملے گی لیکن اس سلسلے میں بھارت کا افغان سر زمین میں عمل دخل ناقابل فہم ہے۔ ہندوستان تو کبھی نہیں چاہے گا افغانستان میں حالات معمول پر آئیں کیونکہ اگر وہاں امن آئے گا تو پھر بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے بھی اپنا تسلط ختم کرنا پڑے گا۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت پاک چین اکنامک کاریڈور کے عظیم منصوبے سے بھی سخت خائف ہیں۔ وہ افغانستان کے حالات مسلسل خراب رکھنا، پاکستان میں بیرونی دہشت گردی اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنی پالیسیوں میں اعتدال لائیں گے اور وہ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی طرح بھارت نوازی کا ثبوت نہیں دیں گے مگر وہ تو ان سے بھی کئی قدم آگے نکل چکے ہیں۔ روس نے افغانستان پر جارحیت کی تو 30لاکھ افغان مہاجرین نقل مکانی کر کے پاکستان آ گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی حکومت نے لاکھوں افغانی بھائیوں کی میزبانی کا فریضہ سرانجام دیا۔ ایران نے بھی افغانیوں کو گلے لگایا اور انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کی۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بھارت تو ماضی میں سابقہ سوویت یونین کی مدد کرتا رہا اور اُس نے ایک بھی افغانی کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دی لیکن آج امریکہ ہندوستان کو ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر سامنے لارہا ہے۔ اگر امریکہ اور یورپی ممالک واقعی جنوبی ایشیا میں امن چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان سے متعلق اپنے دہرے معیارات کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اب نو منتخب امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہو گا؟ امریکہ پہلے افغانستان سے بھارتی عمل دخل کو ختم کروائے اور پھر کشمیر کے معاملے پر ثالثی کا کردار ادا کرے۔ امریکہ کے نامزد نائب صدر مائیک پنیس نے امریکی ٹی وی این بی سی کے پروگرام میں یہ پیشکش کی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ معاملات کے حل کے لئے غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت چاہیں تو وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نو منتخب امریکی قیادت کا یہ بیان خوش آئند ہے۔ جنوری میں امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھا کر وائٹ ہائوس کے نئے مکین بن جائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف سے ٹیلی فون رابطے میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کا رویہ پاکستان کے حوالے سے زیادہ مثبت اور بہتر دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلی فونک گفتگو میں انہوں نے نہ صرف پاکستانی عوام کے لئے اچھے جذبات کا اظہارکیا بلکہ دورہ پاکستان کی دعوت بھی قبول کی۔ ایران نے بھی جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے ثالثی کی آفر کی ہے۔ روس اور ایران دونوں ملکوں نے سی پیک میں شمولیت کے لئے آمادگی ظاہر کی ہے۔ اسی تناظر میں حکومت پاکستان کو عالمی برادری پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت کو مجبور کرے۔ اس وقت امریکہ، روس، چین اور ایران جموں کشمیر کے معاملے پر دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بھی تقاضا یہی ہے کہ عالمی برادری کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوائے۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کی دلچسپی سے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو پھر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کا بھی راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

.