ہائے بیچارے ، تارکین وطن پاکستانی ؟

December 22, 2016

پاکستانیوں نے 50کی دہائی میں وطن عزیز سے اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کا آغاز کیا۔انگلینڈ میں پاکستانی کمیونٹی سیٹ ہونے کے بعد یورپ کے دیگر ممالک کا رُخ اختیار کرتی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے جرمنی، ہالینڈ، فرانس، سپین، بلجیم، پرتگال، یونان، آسٹریا اوراٹلی میں امیگریشن کے نرم قوانین کی وجہ ان ممالک میں پاکستانیوں کی زیادہ تعداد کا باعث بنی۔ ان تارکین وطن نے دوسرے ممالک کے مختلف شعبوں میںاپنے ہنرکے جوہر دکھائےجس سے وہ مقامی کمیونٹی اور اداروں میں جفا کش، محنتی اور ان نتھک قوم کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ کاروبار سیٹ کئے، مزدوری کا شعبہ اپنایا تو اُس میں اپنا خون پسینہ ایک کر دیا، یہ سلسلہ بڑھتا بڑھتا اُن ممالک کی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم تک جا پہنچا جس سے پاکستانی کمیونٹی پر مقامی سیاست کے رموزعیاں ہونا شروع ہو گئے، بس پھر کیا تھا کوئی ایم پی اے بنا تو کوئی لارڈ مئیر، کوئی ایم این اے کی نشست جیتا تو کوئی سٹی مئیر بن گیا جس سے غیر ملکیوں کے حقوق کی پاسداری کے لئے اُن ممالک کی پارلیمنٹ میں آواز بلندہونا شروع ہو گئی۔امریکہ، یورپ اور یو اے ای میں پاکستانی وہاں کی پارلیمنٹ تک پہنچے، کامیاب بزنس مین بنے،اُن ممالک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا اِس کے باوجودانہوں نے اپنے وطن سے ہمیشہ ناطہ جوڑے رکھا۔ وطن عزیزکو جب بھی مدد کی ضرورت ہوئی تو تارکین وطن پاکستانی اُن امدادی کاموں میں تعاون کے لئے پیش پیش نظر آئے۔تارکین وطن پاکستانی ملکی معیشت کے بڑھاوے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں یہ لوگ جب اپنے رشتہ داروں یا بہن بھائیوں کو اپنی کمائی بھیجتے ہیں تو اُس بھیجی گئی رقم کا کچھ حصہ زر مبادلہ کی صورت میں قومی خزانے کو بھی سیراب کرتا ہے یہ زرمبادلہ ملین ڈالرز کی شکل میں ہر سال پاکستان پہنچتا ہے۔ہماری حکومت جب آئی ایم ایف،امریکہ اور دوسرے بڑے ممالک سے قرضہ لیتی ہے تواُس کی واپسی تک قرضہ دینے والے ممالک کی بہت سی شرائط نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑتی ہیں، اِس قرضے کے پہاڑ کے نیچے غریب عوام کے کئی حقوق اور بہت سی خواہشیںدم توڑ دیتی ہیں ہمارے حکومتی نمائندے وہ قرض جان بوجھ کر واپس نہیں کر تے یا اُن کے پاس ایسا کرنے کے وسائل نہیںہیں، بس یہ سمجھ لیں کہ دُنیا بھر میں پیدا ہونے والا ہر بچہ گناہوں سے پاک اور معصوم پیدا ہوتا ہے،لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں حکومتوں کے قرض لینے کی اِس عادت کی وجہ سے پیدا ہونے والا بچہ معصوم اور مقروض پیدا ہوتا ہے۔جنات دُنیا میں نظر نہیں آتے اوریہ قرض بھی شاید جناتی ہیں نہ تولیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نہ ہی کہیں لگاتے ہوئے اِن کا پتا چلتا ہے۔ہماری حکومتیں جن ممالک سے قرض لیتی ہیں انہیں واپس کرنے کی شرط، اُن کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل کی شرط،قرض دینے والے ہمارے ملک میں جب چاہیں، جیسے چاہیں اور جو چاہیں کر سکتے ہیں کی شرط اور ایسی بہت سی شرائط مان لیتی ہیں جن کا خمیازہ پاکستان میں رہنے والوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔دُوسری طرف تارکین وطن پاکستانی ہیں جو پاکستان میں زرمبادلہ بھیجتے ہیں،جو حکومت پر قرض نہیں ہوتا۔تارکین وطن اِس رقم کے بدلے کوئی شرط بھی نہیںرکھتے،جو لوگ اپنے حقوق کے حصول میں ناکام ہیں وہ پاکستان کی حکومت کے سامنے اپنی شرائط کیسے رکھ سکتے ہیں ؟چاہئے تو یہ کہ تارکین وطن کے لئے اپنی دھرتی پر نرم قوانین ہوں،وہاں اُن کے لئے خصوصی سہولتیں پیدا کی جائیں،لیکن اس کے بالکل برعکس تکالیف اور ذہنی کوفت کے سمندر میں تارکین وطن پاکستانیوںکو غوطے دینا ہماری حکومت کا مشغلہ بنا ہوا ہے۔دُنیا کے بیشتر ممالک اپنے عوام کو شناختی کارڈز مفت مہیا کرتے ہیں،جبکہ پاکستان میں شناختی کارڈ کی فیس ایک ہزار سے پندرہ سو روپے ہے،سعودی عرب میں 6ہزار پاکستانی روپے جبکہ یورپی ممالک میںمقیم پاکستانیوں کے لئے یہ فیس 110یوروہے یہ یوروز پاکستانی کرنسی میں تقریباً 13ہزار روپے بنتی ہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ چونکہ آن لائن کر دئیے گئے ہیں اور یورپ میں پاکستانی کمیونٹی کی زیادہ تعداد ناخواندہ اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اس لئے وہ آن لائن شناختی کارڈ کے انگلش فارم پُر نہیں کر سکتی لہذا آن لائن فارم پُر کرنے والے افراد 30یورو مزید چارج کرتے ہیں جس سے یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو شناختی کارڈ کی فیس 140یورو یا پاکستانی 15820روپے ادا کرنے پڑتے ہیںجو معاشی بد حالی کے اس دور میں یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔دُنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوںسے اور آن لائن پاسپورٹ بنوانے پرحکومت پاکستان نے پاسپورٹ کی فیس 35یورو مقرر کی ہوئی ہے اب اندازہ لگائیں کہ یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے لئے 36صفحات پر مشتمل پاسپورٹ کی فیس 35یورو جبکہ ایک صفحے کے شناختی کارڈ کی فیس 140یورو ہے، یہاں یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ آپ کسی بھی ملک سے بنوائیں وہ بن کر پاکستان سے ڈاک کے ذریعے جائیں گے۔اب جب دونوں چیزیں پاکستان سے بن کر آ رہی ہیں تو فیس میں اتنا فرق کیوں ہے ؟ اب حکومتی نمائندے یا وزارت داخلہ یہ فیصلہ نہ کر دے کہ شناختی کارڈ کے ایک صفحے کی فیس 140 یورو ہے تو36صفحے کے پاسپورٹ کی فیس بھی 35سے بڑھا کر 140 یورو کر دی جائے۔اس حوالے سے ایک لطیفہ لکھنا چاہوں گا ’’ایک ملازم نے اپنے کنجوس مالک سے کہا کہ مجھے آپ کے پاس کام کرتے اتنے سال ہوگئے برائے مہربانی اب میرا مہینہ بڑھا دیں وہ کنجوس مالک جھٹ سے بولا اچھا چلو آج سے تمہارا مہینہ چالیس دن کا ہو گیا‘‘ ملازم اپنے مالک کا منہ تکتا رہ گیا کیونکہ اُس نے تو مہینہ بڑھانا اپنی تنخواہ بڑھانے کے مقصد کے تحت کہا تھا۔ بس تارکین وطن کو اسی بات کا ڈر ہے کہ یہ حقائق پڑھ کر وزارت داخلہ پاکستان’’ اُس کنجوس مالک‘‘ کی طرح ایک صفحے کے شناختی کارڈ کی فیس کم کرنے کی بجائے36 صفحات کے پاسپورٹ کی فیس شناختی کارڈ جتنی نہ کر دے۔

.