کراچی کی انگنت عمارتیں غیر محفوظ ہیں، ماہرین

February 11, 2017

افضل ندیم ڈوگر....کراچی میں ساخت یا اسٹرکچر کی منصوبہ بندی کے بغیر لاکھوں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کو ماہرین تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔ کسی شدید زلزلے کی صورت میں کراچی کسی بڑے قبرستان کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ڈائریکٹر انجینئر اعجازالحق کراچی میں تعمیرات کے ماہر ہیں جو لگ بھگ ڈھائی دہائی سے عمارتوں کی مقامی اور بین الاقوامی تعمیرات کا مشاہدہ اور تجربہ رکھتے ہیں۔ جنگ سے ملاقات میں انہوں نے کراچی میں تعمیرات کو حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ طویل عرصے سے تواتر کے ساتھ زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جاتے رہے ہیں، کراچی بھی کئی بار مختلف نوعیت کی شدت کے جھٹکوں کی زد میں رہا۔

ا ن کا کہنا ہے کہ کراچی میں زلزلے کے اب تک کے جھٹکے کم شدت کے تھے۔ "خدا کا شکر ہے کہ بچت ہوگئی" ہر جھٹکے کے بعد کراچی والے یہ کہہ کو اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں لیکن زلزلے کا کوئی بڑا جھٹکا لگا تو کثیر المنزلوں کے جنگل میں کیا تباہی ہوگی یہ سوچ کر ہی جسم میں زلزلہ آجاتا ہے۔

انجینئر اعجازالحق کے مطابق جھٹکوں کی بڑی نوعیت کراچی کے لحاظ سے ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور یہ تباہی کا اشارہ اس لیے بھی بہت زیادہ ہوجاتا ہے، جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ زلزلے کی تعداد کا جو زون یا شدت کسی بلند و بالا عمارت کی منصوبہ بندی میں کیا جاتا ہے وہ بھی سطحی تہوں کے جدید مطالعے سے بہت کم ہے اور اس حقیقت سے انکار کرکے ہم اور زیادہ مشکل میں پھنس جائیں گے کہ کراچی میں کوئی بھی عمارت تعمیر کی منصوبہ بندی کے حساب سے نہیں ہوتی بلکہ استحکام میں ہمیشہ اس سے کم تر ہوتی ہے۔

ان تمام باتوں کی روشنی میں ضروری ہے کہ تعمیری منصوبہ بندی کا ایک ایسا معیار بنایا جائے اور فوری طور پر عمارت کی ساخت یا اسٹرکچر کی منصوبہ بندی کیلئے انجینئرز کی رہنمائی کا کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ ہنگامی بنیادوں پر جو عمارتیں سندھ بالخصوص کراچی میں تعمیرہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں، فوری طور پر ان عمارتوں کو اس محفوظ معیار پر لانے کیلئے کام کیا جائے۔

انجینئر اعجازالحق کے مطابق جہاں انسانوں کی جانوں اور خاص طور پر جب کروڑوں انسانوں کی جان کا معاملہ ہو توہم اس کام کو ناممکن کہہ کر ٹال نہیں سکتے کیونکہ اس طرح ہم اس بڑی تباہی کو اور بڑا کرتے جائیں گے اور اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے خود قبرستان تیار کرکے جائیں گے جبکہ صرف کراچی میں ایسی عمارتوں کی تعداد جو ساخت یا اسٹرکچر کی منصوبہ بندی کے لحاظ سے خطرناک ہیں، ان کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں میں آتی ہیں۔

ساخت یا اسٹرکچر کے لحاظ سے خطرناک عمارت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ عمارت اگلے لمحے گر جائے گی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمارت کی ساخت یا اسٹرکچر کا نظام ناکام ہوچکا ہے اور فوری طور پر ایسی عمارت کو احتیاط سے مشاہدے میں لاکر فوری طور پر محفوظ بنایا جائے اور انسانی جانوں کو بچایا جائے۔

ایسی عمارتوں کے بارے میں صرف فنی طور پر پیشہ وارانہ انداز میں کوئی فیصلہ کیا جائے، کوئی سیاسی فیصلہ کوئی مذہبی فیصلہ اور کوئی قانونی فیصلہ، اس عمارت کیلئے خطرناک، غیر قانونی اور انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہوگا جو عمارتیں بن چکی ہیں یا جو بن رہی ہیں فوری طور پر ان کی منصوبہ بندی کا معیار یا کوئی اور فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ انسانی جانیں محفوظ بنائی جاسکیں کیونکہ انسانی جانوں سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی تمام چیزوں سے پہلے انسانی جان کو خطرے سے نکالنے کیلئے اور اسے محفوظ بنانے کیلئے عمل کیا جانا چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اس موضوع کے سب سے ذمہ دار اور قابل لوگ غیر محفوظ کل اور غیر محفوظ آج کا آرٹیکل لکھ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگیں۔

تمام بڑے اور قابل اسٹرکچر انجینئرز اور پیشہ وارانہ انجمن اور یونیورسٹیز ان تمام چیزوں کو زیر بحث لاتی ہیں۔ مختلف مباحثوں، سیمینارز میں یہ تمام باتیں زیر غور آتی ہیں لیکن ان چیزوں کو عمل پذیر کرنے کو ایک ڈراؤنا خواب اور ناممکن کام سمجھ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اتنے بڑے کام کیلئے ہماری کوشش سے کچھ نہیں ہوگا اور اس طرح ایک بہت بڑی تباہی کو ہم جمع کرتے جارہے ہیں۔

اس اہم ترین مسئلے کے حل کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے پاکستان انجینئرنگ کونسل اپنا رول ادا کرتے ہوئے دوسری متعلقہ پیشہ وارانہ انجمنوں، یونیورسٹیز خاص طور پر این ای ڈی یونیورسٹی اور دوسرے ارضیات کے اداروں کی مدد سے مطلوبہ عمارت کی ساخت اسٹرکچر کی منصوبہ بندی کیلئے انجینئرز کی رہنمائی کا طریقہ فوری طور پر وضع کیا جائے اور متعقہ ادارے یعنی ایس بی سی اے کے ذریعے اس پر عمل کیا جائے یہ تمام اسٹرکچر انجینئرز کی ذمہ داری ہے چاہے وہ کسی بھی ادارے سے تعلق رکھتے ہوں ہر ایک سے اسے دوسرے کی ذمہ داری سمجھ کر عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔