ہم زندہ اور پائندہ قوم ہیں

March 08, 2017

امریکہ میں جب ایک قیدی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو وہاں کے کچھ سائنس دانوں نے سوچا کہ کیوں ناں اس قیدی پر تجربہ کیا جائے۔ سائنسدانوں نے قیدی کو بتایا کہ ہم تمہیں پھانسی دے کر نہیں ماریں گے بلکہ زہریلے کوبرا سانپ سے ڈسوا کر موت کی نیند سُلائیں گے۔ زہریلا کوبرا سانپ لانے کے بعد قیدی کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُسے موت کی کرسی پربٹھا دیا گیا۔ کوبرا سانپ کو ایک طرف کرکے قیدی کے بازُو پر دو عدد سیفٹی پن چبھوئی گئیں۔ کچھ دیر بعد ہی قیدی موت کی آغوش میں چلا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ قیدی کی موت کا سبب سانپ جیسا زہر ہی بنا ہے۔ سب حیران تھے کہ یہ زہر قیدی کے جسم میں کہاں سے آیا؟ سائنسدانوں نے تحقیق کی اور بتایا کہ وہ زہر قیدی کے اپنے جسم نے ہی صدمے میں جاری کیا تھا، تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہمارے ہر عمل سے مثبت اور منفی توانائی بنتی ہے جو ہمارے جسم میں اُسی عمل کے مطابق ہارمونز تیار کرتی ہے۔ 75فیصد بیماریوں کی وجہ منفی سوچ ہے اور آج انسان اپنی اسی سوچ سے خود کو ختم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی سوچ ہمیشہ مثبت رکھنی چاہئے ناں کہ ہم حسد، نفرت اور دوسروں کی کامیابی کے صدمے میں اتنا آگے نکل جائیں کہ ہمارا جسم ہی ہمیں زہر آلود کر دے۔ ایک مدُت سے دوسرے ممالک کی کرکٹ ٹیمیں پاکستان کا دورہ نہیں کر رہی تھیں، سر ی لنکا کے کھلاڑیوں پر قذافی اسٹیڈیم کے باہر کیا جانے والا دہشت گردوں کا حملہ اور پاکستان میں ہونے والے آئے دن کے بم دھماکے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کے خوف میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔ اس لئے پاکستان سپر لیگ کے میچز دبئی اور شارجہ میں کرائے گئے، اعلان کیا گیا تھا کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہوگا، اِس اعلان کے ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں نے خود کش حملے کئے جس سے کئی پاکستانی شہید ہوئے، اِن بم دھماکوں کے پیچھے پاکستان کی دشمن طاقتیں سرگرم عمل تھیں۔ دہشت گردوں کے کھلم کھلا چیلنج کے جواب میں حکومت پاکستان نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہی کرانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان آرمی نے اس حوالے سے حکومت کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ کچھ انٹرنیشنل کھلاڑی اپنے خوف میں مبتلا رہے اور پاکستان نہ آئے لیکن باقی کھلاڑیوں کو رانا فواد، جاوید آفریدی اور نجم سیٹھی نے قائل کر لیا اور وہ فائنل کھیلنے لاہور پہنچ گئے۔ قذافی اسٹیڈیم میں رونقیں بحال ہو گئیں، اسٹیڈیم کو پھر سے سجایا گیا، پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر شائقین کرکٹ کی حفاظت کی ذمہ داری لی، فائنل والے دن لاہور کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی سیکورٹی کا بندوبست کیا گیا۔ اسٹیڈیم میں آنے والے راستوں سے لے کر اسٹیڈیم کے اندر تک حفاظتی انتظامات کئے گئے، فضائی نگرانی اور سی سی ٹی وی کیمروں کا جال بچھایا گیا۔ شائقین کرکٹ کا خوف ختم کرنے کیلئے پاکستان آرمی کے شیر جوانوں پر مشتمل ’’چھاتا بردار‘‘ گروپ فضاؤں میں پاکستان کا جھنڈا اور مختلف رنگ بکھیرتا اسٹیڈیم میں اُترا، اسٹیڈیم میں ترانوں کی دُھنیں بکھیری گئیں، گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادُو جگایا۔ یہ سب کچھ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کیلئے کیا گیا تھا۔ سارے انتظامات کی منظوری حکومت پاکستان نے دی تھی، وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر قانون اور دوسرے وزراء لوگوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے پر مامور تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا فائنل دیکھنے نہیں آئے، وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں پٹھانوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے، جبکہ اسٹیڈیم کے اندر فائنل میچ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے پٹھان ہی کھیل رہے تھے۔ تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کیلئے سب کچھ کریں گے، مگر وہ پاکستانی عوام کی رونقوں میں شامل نہیں ہوئے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن پی ایس ایل کا فائنل تو پاکستان کا تھا اور پاکستانیوں کے لئے تھا۔ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا تھا کہ تمام ٹکٹیں مسلم لیگیوں کو دی گئی ہیں تاکہ اسٹیڈیم میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے حق میں نعرے لگائے جائیں۔ کہا جا رہا تھا کہ ہر مسلم لیگی ایم پی اے اور ایم این اے اپنے ساتھ غنڈے لے کر جا رہا ہے تاکہ وہ حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو روک سکیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ فائنل میچ کی ٹکٹیں میاں برادران نے اپنے چہیتوں کے پریس سے چھپوائی ہیں، کیا بتاؤں کہ کیا کچھ نہیں لکھا گیا تھا؟ بات وہیں آجاتی ہے کہ ہم اپنے اندر کی نفرت اور دوسروں کی کامیابی کے صدمے سے اپنے اندر ایک زہر پیدا کر لیتے ہیں اور اِس بات کا نظارہ قذافی اسٹیڈیم میں اُس وقت دیکھنے کو ملا جب نجم سیٹھی تقریر کرنے آئے اور مخصوص لوگ گو نواز گو کے نعرے لگانے لگ گئے اور دوسری طرف سے رو عمران رو کی آوازیں آئیں، یہ نعرے لگانے والے کون تھے؟ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن تھے لیکن تھے پاکستانی، انہیں اپنی نفرت میں یہ نہیں بھولنا چاہئے تھا کہ غیرملکی کھلاڑی ہماری حکومت کے کہنے پر ہمارے میدانوں کو آباد کرنے آئے ہیں۔ حکومت نے ہی فائنل میچ کا بندوبست کیا تھا، نجم سیٹھی نے جو چیلنج قبول کیا تھا وہ پورا کردیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب، پنجاب پولیس، پاکستان آرمی اور دوسرے سیکورٹی اداروں نے دن رات ایک کرکے شائقین کرکٹ کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستانی عوام ’’گو نواز گو‘‘ اور ’’رو عمران رو‘‘ جیسے نعروں کی بجائے پاکستان زندہ باد، پاکستان آرمی زندہ باد، پنجاب پولیس زندہ باد جیسے خوبصورت نعرے لگاتے، فائنل میچ ختم ہونے تک نفرتوں کی بجائے چہروں پر مسرت سجاتے کیونکہ یہ عمل پاکستان دشمن ممالک کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہ ہوتا، اسٹیڈیم سے باہر نکل کر بے شک دوبارہ سے پانامہ پانامہ کھیلنا شروع کر دیتے، افسوس کہ ہم نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا مظاہرہ تو کیا لیکن اپنے زہر آلود اور نفرت بھرے نعروں سے انٹرنیشنل طور پر مثبت پیغام نہیں چھوڑا، انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں سے یقیناً پوچھا ہوگا کہ اسٹیڈیم میں یہ کیسا شور ہے اور پاکستانی عوام کیا کہہ رہے ہیں؟ ہمیں ہمیشہ اِس بات کا دھیان رکھنا چاہئے کہ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں۔



.