ایک بار پھر فوجی عدالتیں

March 19, 2017

یہ پہلی بار تھا کہ کسی جمہوری دور حکومت میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہو۔مارشل ادوار میں تو فوجی عدالتیں،فوجی انتظامیہ معمول کا حصہ ہوتے ہیں مگر عوامی مینڈیٹ سے وجود میں آنے والی حکومت کے دور میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ماضی میں کبھی بھی کسی منتخب سیاسی حکومت نے فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کی تھی۔لیکن دو سال قبل پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کی تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی ۔رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے رہنما ؤں نے جذباتی تقاریر ضرور کیں مگر حتمی ووٹ عدالتوں کے حق میں ہی ڈالا۔ماضی میں قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کی دو سالہ مدت اپنے اختتام تک پہنچی توایک بار پھر فوجی عدالتوں کی میعاد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ماضی میں فوجی عدالتوں کے حوالے سے تحفظات رکھنے والی حکمران جماعت مسلم لیگ ن اس بار عدالتوں کے حق میں آگے آگے نظر آئی۔مگر سینیٹ کی اکثریتی جماعت کے شریک سربراہ آصف زرداری نے غیر متوقع طور پرفوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف موقف اختیار کرلیا۔پیپلزپارٹی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جب دو سال کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو طے کیا گیا تھا کہ اس عرصے میں موثر قانون سازی کرکے عدالتی نظام میں موجود نقائص اور خامیاں دور کرلی جائیں گی،تاکہ پھر کبھی فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ پڑے۔مگر بدقسمتی سے گزشتہ عرصے کے دوران نہ ہی جمہوری حکومت نے ایسا کیا اور نہ ہی اسے ایسا کرنے دیا گیا۔
ہمیشہ سے آمریت اور آمرانہ یادوں کا مخالف رہا ہوں۔کبھی بھی فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی آئندہ کبھی کروں گا۔لیکن حقائق یہ بھی ہیں کہ فوجی عدالتوں کا بڑا ناقد ہونے کے باجود یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران فوجی عدالتوں میں انصاف کے حوالے سے کوئی معقول شکایت سامنے نہیں آئی۔فوجی عدالتوں نے جن دہشتگردوں کو سزائیں دیں ،اعلیٰ عدلیہ نے بھی انہیں برقرار رکھا۔ان عدالتوں کے قیام کے وقت ان تحفظات کا شدت سے اظہار کیا جارہا تھا کہ سیاستدان بھی ان عدالتوں کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔جیسا کے مارشل لاادوار کی عدالتوں میں ہوتا رہا ہے ۔مگر خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔اسی وجہ سے اس مرتبہ جب ان عدالتوں کے قیام میں توسیع کا مطالبہ کیا گیا تو سویلین حکومت نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔مگر دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی تنقید بھی درست تھی کہ کیا ساری زندگی فوجی عدالتوں پر اکتفا کرنا ہے۔جمہوری دور میں سویلین بالادستی ہی اہم ہوتی ہے،مگر فوجی عدالتوں کی موجودگی میں یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔مگر یہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا جمہوری حکومت کو کسی نے اصلاحات اور فوجی عدالتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا موقع دیا تھا۔منتخب حکومت نے گزشتہ دو سال جیسے گزارے ہیں۔ہم سب بہتر جانتے ہیں۔ایسے میں عدالتی نظام میں بہتر ی تو کیا سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ہر ہفتے رخصتی کی نئی نئی تاریخیں دی جارہی تھیں۔ایسے میں کوئی بھی کمزور جمہوری حکومت کیسے اصلاحات کرسکتی ہے۔باقی جہاں تک بات رہی پیپلزپارٹی کی تو ایک بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آصف علی زرداری نے یہ سب کچھ سویلین بالادستی یا پھر فوجی عدالتوں کی مخالفت میں نہیں کیا۔بلکہ قیادت میں تبدیلی کے بعد زرداری صاحب توقع کررہے تھے کہ ماضی میں پیدا ہونے والی خلیج دور ہوجائے گی مگر نئی قیادت نے بھی انہیں مایوس کیا۔سیاسی شطرنج کے ماہر آصف زرداری سمجھ رہے تھے کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر جارحانہ موقف اختیار کرنے پر انہیں قائل کیا جائے گا اور اس بار وہ نوازشریف نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ بات چیت کرکے فوجی عدالتوں کی حمایت کریں گے۔مگر دو ہفتوں تک کوششوں کے باوجود کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔اس دوران کورکمانڈرز کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔بیک ڈور چینل کے ذریعے پی پی پی سے رابطے کے بجائے حکمران جماعت پر مزید دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔جس کا ایک عکس پریس ریلیز کے چند نکات میں بھی سامنے آیا تھا۔عسکری حکام کی طرف سے براہ راست رابطہ نہ ہونے اور حکمران جماعت کے غیر معمولی اصرار کی صورتحال میں آصف علی زرداری نے ایک بار پھر عدالتوں کی حمایت کا فیصلہ کردیا۔رضا ربانی صاحب جو اب چیئر مین سینیٹ بن چکے ہیں،جب کے اعتزاز احسن سینیٹ میں پی پی پی کی نمائندگی کررہے ہیں۔دونوں رہنماؤں نے ماضی کی روایت کو برقرار رکھا۔
لیکن فوجی عدالتوں کے لئے دوبارہ ترمیم کے موقع پر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔حالات بتارہے ہیں کہ جمہوری حکومت فوجی عدالتوں کے نئے قیام کے ساتھ ہی متنازع خبر لیکس کے معاملے سے بھی نکل آئے گی۔گزشتہ دنوں آنے والی ایک پریس ریلیز میں فوجی عدالتوں کے فوراََ بعد متنازع لیکس کا مختصر ذکر کیا گیا تھا۔جس میں بہت کچھ واضح ہورہا تھا۔لیکن حکومت کے آخری سال کے دوران کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ آئندہ کسی بھی جمہوری حکومت کو فوجی عدالتوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔اگر ہم فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ہیں تو یہ بھی درست ہے کہ عدالتی نظام میں بھی بہت سی سنگین خامیاں موجود ہیں۔مقتدر ادارے کے سیاسی کردار پر تنقید اپنی جگہ مگر شاید گزشتہ دو سال میں فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائے موت پانے والا کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے جو دہشتگرد نہ ہو اور اسے سزا سنادی گئی ہو۔ہمارا تو اس نظام سے اختلاف ہی یہ ہے کہ آج ہم پاکستان میں جس نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں ،اس میں ان عدالتوںکی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔لیکن بدقسمتی سے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔اگر عدالتی نظام کو دیکھاجائے تو پھر فوجی عدالتوں کے سوا کوئی چارہ بھی نظر نہیں آتا مگر اب ہمیں دیگر اصلاحات کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام میں بھی موثر اور جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔تاکہ مجھ سمیت جمہوریت کے وہ سب داعی جو ایک سویلین ادارے کے مقابلے میں فوجی عدالتوں کی حمایت پر مجبور ہوئے ہیں،انہیں بہتر عدالتی نظام میسر آسکے۔



.