ٹو ان ون گل و خار…سیمسن جاوید

March 20, 2017

یہ نہایت خوش آئند اور قابل تحسین بات ہے کہ موجودہ حکومت نے امن کی بحالی ،فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے جو اقدام کئے ہیںاِن کا ثمر آج سامنے آ رہا ہےاور ملک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہو گیا ہے۔ پاکستان میں امن و استحکام لانے کیلئے ہونے والی کوششوں کا اعتراف پاکستان کے دوست ملک چین کے وزیرخا رجہ اجہ وانگ ژی نے بیجنگ میںچیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ سے ہونے والی ملاقات کے دوران برملاکیا ۔ فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کی کوششوں کے سلسلے میں گذشتہ وفاقی روز وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان نے تمام نام نہادعناصر کوانتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناموس رسول ﷺہمارے ایمان کا حصہ ہے۔توہین رسالت گھناؤنا جرم ہے جس کا ارتکاب کرنے والے لوگ اسلام کے ہی نہیں انسانیت کے دشمن ہیں ،گستاخی کے مرتکب افراد کو سزا دلانے کے لئے آخری حد تک جائیں گے،تاہم کسی بے گناہ پر جھوٹے الزام کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔گستاخانہ مواداپ لوڈ کرنے پرسوشل میڈیا بند ہو سکتاہے۔اس سے پہلے وزیر اعظم نے کراچی میں اپنے گہرے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ تمام تمام ذرائع اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے گستاخانہ مواد کو مستقل بنیادوں پر تمام ویب سائٹس سے ہٹانے کا بندوبست کریں۔ ہولی کے تہوار پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ جس طرح ہولی امیداور زندگی کے مختلف رنگوں اور بہار کا پیغام ہے اسی طرح پاکستان کا موسم بھی تبدیل ہو رہا ہے یہاں وہ بہار کے دن لوٹ رہے ہیںجن کی تلاش میں مذاہب کے مابین پرامن بقائے باہمی کی بنیاد رکھی گئی۔پاکستان اس لئے قائم ہوا تھا کہ یہ مسلمانوں ہی کے لئے نہیں،اس خطے میں آباد ہر قبیلے اور برادری کے لئے امن کا مرکز بنے۔قائد اعظم نے 11 اگست 1947 ہی کو واضح کردیا تھا کہ یہاں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔قائد اعظم نے اس تقریر میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا ،ریاست پاکستان اس کو نبھانے کی پابند ہے اور اس معاملے میں کوتاہی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔وزیر اعظم کے اس پیغام نے پاکستان میں بسنے والی تمام مذہبی اقلیتوں کے دل جیت لیے ہیںاور وہ خوف و ہراس کے حصار سے باہر نکل پائیں گی۔ یہ بات نہایت قابل افسوس اور باعث مذمت بھی ہے کہ ان ویب سائٹس پر گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے والے بعض نام نہاد مسلمان گستاخوں کا تعلق پاکستان سے ہےجس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی بھی ہو رہی ہے۔انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ان کا ایجنڈا صرف اور صرف انسانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا، آپس میں لڑانا اور ان کے خون کی ہولی کھیلنا ہےجس کی تکمیل کے لئے وہ تمام پرنٹ و الیکڑونک میڈیا کا آزادانہ استعمال کر رہے ہیں ۔اور معصوم لوگوں کو اس چنگل میں باآسانی پھنسا لیتے ہیں۔حکومت کے اس اقدام سے انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کی روک تھام میں کسی حد تک مدد ملے گی اور جانے انجانے میں کوئی توہین ابنیاء کا مرتکب بھی نہ ہو گا۔جہاںانٹرنیٹ نیٹ ورک بعض حالتوں میں خطرناک ہے وہاں بہترمعلوماتی اور پوری دنیا کے حالات سے فوری آ گہی اور رابطے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ صورت حال یہ بھی ہے کہ بعض لوگ جن کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا وہ سوشل میڈیا پر بیٹھے دھڑا دھڑفالتو پوسٹیں لگاتے رہتے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔اس کے برعکس ایک فائدہ یہ ہے کہ اگرآپ نے کسی کو تلاش کرنا ہو تو سوشل میڈیا پر باآسانی ڈھونڈ سکتے ہوبشرطیکہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہو۔کئی لوگ سوشل میڈیا پر اپنی ذہنی تسکین اور منفی رحجانات کو فروغ دینے کے لئے فرضی ناموں سے موجود ہیںجس سے وہ نہ صرف لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں بلکہ لوگوں کوڈس انفارمیشن بھی دیتے ہیں۔بعض لوگ خوف و ہراس اور افراتفری پھیلانے ،مذہبی فرقہ واریت اور بین المذاہب میں نفرتیں پھیلا کر اپنے مذموم و ناپاک ارادوں کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ لوگ سوشل میڈیا پر لگائی پوسٹوں پراچھے کمنٹس کے ساتھ ساتھ بغیر سوچے سمجھے عجیب و غریب کمنٹس بھی پاس کردیتے ہیں ۔حال ہی میں میری نظر ایک تردیدی پوسٹ پر پڑی جس پر کسی نے کیا ہی با معنی کمنٹ کیا ہوا تھا۔پیشگی معذرت کیساتھ ، کمنٹ کچھ اس طرح تھا۔ ’’واہ۔’’ ٹو ان ون ‘‘ پاسٹر بھی اور سیاست دان بھی ۔واہ جی واہ‘‘ پوسٹ لگانے والے نے اس کاجو بھی جواب دیا ہو ، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے مذہبی رہنماؤںنے مذہب اوراپنی کمیونٹی کو کافی نقصان پہنچایا ہے جو مذہبی خادم بھی ہیں اور سیاست میں بھی مقام رکھتے ہیں۔کیونکہ سیاست اب صرف ھیرا پھیری اور لوٹ کھسوٹ کا نام ہی رہ گیا ہےقوم کی خدمت نہیں رہی جبکہ مذہب ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور بہتر سوسائٹی اور معاشرے کی تشکیل ِ نوکا منبع بھی ہے۔ ایک تجزئے کے مطابق بعض خدا کے خادم خدا کے نام پر لوگوں کو لوٹنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔مقدس متی اور لوقا کی انجیل میں خداوند فرماتے ہیں کہ کوئی نوکر دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تووہ ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔یاپھر ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو نا چیز جانے گا۔تْم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔