ڈھونگ انتخابات اور کشمیریوں کا واضح فیصلہ!

April 18, 2017

وزیر اعظم نواز شریف نے درست طور پر یہ نشان دہی کی کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام نے بھارتی افواج کے تمام تر استبدادی ہتھکنڈوں کے باوجود نام نہاد انتخابات کو مسترد کرکے واضح کردیا ہے کہ ان کے جذبہ آزادی کو دبایا نہیں جاسکتا۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والا بیان اتوار کے روز ایسے موقع پر سامنے آیا جب ضلع بارہ مولہ کے 23سالہ نوجوان سجاد احمد کے بہیمانہ قتل پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال نے شہری زندگی عملاً معطل کر رکھی تھی۔ یہ ہڑتال کشمیری رہنمائوں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کی اپیل پر کی گئی۔ سجاد احمد بھارتی بارڈر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے اس وقت شہید ہوا جب باٹا مالو کے علاقے ریکا چوک میں وہ دیگر نوجوانوں کے ساتھ مل کر بھارتی جبر و تسلط اور نام نہاد انتخابی ڈرامے کے خلاف احتجاج کررہا تھا۔ ہفتہ 15اپریل کو ضمنی انتخاب کے دوبارہ انعقاد کے موقع پر بھارتی افواج کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود نہ صرف کشمیری عوام پولنگ اسٹیشنوں سے دور رہے بلکہ احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے کر، ’’آزادی، آزادی‘‘ کے نعرے لگا کر اور جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرا کریہ واضح کرتے رہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا وہ حق لے کر رہیں گے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں نے انہیں دیا ہے اور جس کا بھارت کے پہلے وزیر اعظم نے عالمی فورم پر وعدہ بھی کیا تھا۔ اتوار کے روز مقبوضہ کشمیر میں رچائے گئے انتخابی ڈرامے کے نتائج کا بھی اعلان کردیا گیا۔ وسطی کشمیر کے تین اضلاع اور 15اسمبلی حلقوں پر مشتمل سری نگر پارلیمانی نشست پر ضمنی الیکشن پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق 9اپریل کو ہوئے۔ اس دوران حق خودارادیت مانگنے والے عوام پر قابض افواج کی فائرنگ سے 8کشمیری نوجوان شہید ہوئے جس کے بعد پولنگ ملتوی کردی گئی اور مختلف مراحل میں مکمل ہوئی۔ ہفتے کے روز 38پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ ووٹنگ میں الیکشن کمیشن کے مطابق درج شدہ ووٹروں کی تعداد کے بمشکل دو فیصد افراد نے ووٹ ڈالے جبکہ الیکشن کے دوران بھارتی فورسز کے بدترین تشدد اور انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی تمام تر تحریص و ترغیب کے باوجود مجموعی ٹرن آئوٹ 5فیصد سے بھی کم رہا۔ متعدد پولنگ بوتھس پر ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔ لوک سبھا کی سری نگر کی نشست پر اگرچہ 9امیدوار کھڑے ہوئے تھے مگر حقیقتاً مقابلہ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ (48,554 ووٹ) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے نذیر احمد خاں (37,779ووٹ) کے درمیان ہوا۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بنائے ہوئے اتحاد کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فاروق عبداللہ نے انتخابی مہم کے دوران بھارت پر تنقید اور حریت رہنمائوں کے موقف سے قریب تر نوعیت کے بیانات دئیے تھے اور کامیابی کے بعد ان انتخابات کو تاریخ کے انتہائی خونیں الیکشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس کامیابی پر خوش نہیں‘‘۔ اس الیکشن کا ایک خاص پہلو 2015ء میں الیکشن کمیشن کی طرف سے متعارف کرائے گئے ’’نوٹا‘‘ (یعنی تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کے) آپشن کے حق میں 1.04 کی شرح سے آنے والے ووٹ ہیں۔ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے اتوارکے روز عطیہ خون کے ایک کیمپ کا افتتاح کرتے ہوئے واضح کیا کہ کشمیری عوام انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر یقین رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ چاڈرہ میں مقامی نوجوانوں نے سی آر پی اہلکاروں کو بحفاظت سڑک پر پہنچا کر کیا جبکہ بیروہ میں ایک کشمیری نوجوان کو فوجی جیپ سے باندھنے کے واقعہ نے ثابت کردیا کہ نئی دہلی کے حکمراں دنیا کے سامنے جمہوریت و انسانیت کے جو نعرے لگاتے ہیں، ان پر خود یقین نہیں رکھتے۔ وزیراعظم ہائوس اسلام آباد کی جانب سے اتوار کو جاری کئے گئے بیان میں مقبوضہ کشمیر میں جاری وحشت و بربریت کے جس کھیل کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے، عالمی برادری کو اس کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر کے پرامن و دیرپا حل کے لئے فوری طور پر حرکت میں آنا چاہئے۔ تنازع کشمیر کا جلد تصفیہ ہونا جنوبی ایشیا کے خطے اور پورے کرہ ارض کے مفاد میں ہے۔

.