سول و فوجی قیادت نے کس کس کو مایوس کیا؟؟

May 11, 2017

بدھ کا روز اُن بچارے ٹی وی اینکرز اور سیاسی رہنمائوں کے لیے ماتم کا دن بن گیا جو عمومی طور پر ڈان لیکس اور خصوصاً ڈی جی آئی ایس پی آر کے اپریل 29 کے متنازعہ ٹویٹ کے بعد اس خبر کے انتظار میں تھے کہ اب فوج کب نواز شریف حکومت کی چھٹی کرتی ہے۔ فوج کے سہارے سیاست کرنے کی خواہش رکھنے والے سیاسی رہنماتو کہیں گم ہی ہو گئے لیکن چند ایک اینکرز نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی مایوسی کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ فوج کو ہی ٹارگٹ کرنے لگے۔ پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ سویلین قیادت اور فوج کے درمیان معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا اور پاکستان کے دشمنوں کی اس خواہش پر پانی پھر گیا کہ پاک فوج اور حکومت آپس میں لڑ پڑیں۔ ایسے حالات میںجہاں پاکستان کو کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے حکومت اور فوج کے درمیان کسی بھی قسم کی لڑائی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو سکتی بلکہ الٹا اس کا فائدہ صرف اور صرف پاکستان کے دشمنوں کو ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک مایوسی میں ڈوبے اینکرز اور سیاسی رہنمائوں کا تعلق ہے تو اُن کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کی دشمنی میں اتنا اندھا نہیں ہو جانا چاہیے کہ آئین، قانون اور ملکی مفاد کو ہی بھول جائیں۔ نواز شریف کی حکومت میں بہت خرابیاں اور خامیاں ہیں لیکن کسی بھی حکومت کو کمزور کرنے یا اُسے الٹنے کے لیے فوج کی طرف دیکھنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ پاناما کیس ہو یا کوئی دوسرا سکینڈل، نواز شریف کو فارغ کرنا ہے تو اُس کے لیے عدلیہ کے پاس جایا جا سکتا ہے، اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت مخالف تحریک چلا سکتی ہیں جس سے نواز شریف حکومت کی چھٹی کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا حکومت پر پریشر ڈال سکتا ہے لیکن فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے ہم اُن غلطیوں کو دھرائیں گے جن کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ 29 اپریل کے فوجی ٹویٹ کے فوری بعد میں نے سوشل میڈیا میں یہ رائے دی تھی کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وزیر اعظم کے ڈان لیکس کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرنے کے متعلق جاری حکم نامہ کو بغیر سمجھے جلدی میں اپنا ایسا رد عمل دیا جو نامناسب اور متنازعہ تھا۔ اسی بنا پر اُسی روزمیں نے مطالبہ کیا کہ فوجی ترجمان کو اپنا ٹویٹ واپس لے لینا چاہیے تاکہ سویلین قیادت اور فوج کے درمیان غلط فہمی اور ممکنہ کشمکش کو روکا جا سکے۔ چلیں اُس وقت ایسا نہ ہوا لیکن اب ہو گیا جس سے ڈان لیکس کا معاملہ اختتام پذیر ہوا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سول اور فوجی قیادت اپنے درمیان رابطے کا ایسا نظام بنائیں جو آئندہ وہ صورتحال پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بنے جس کا ہمیں گزشتہ دس بارہ دن سے سامنا تھا۔ خصوصاً وزیر اعظم پر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کابینہ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو فعال بنائیں تاکہ فوج اور سول حکومت کے درمیان دفاع اور سیکورٹی کے معاملات میں تبادلہ خیال کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم ہو جہاں دوسرے دفاعی اور سکیورٹی معاملات کے علاوہ نیوزلیکس جیسے مسئلہ پر بھی کھل کر بات کی جا سکے اور ایسے مسائل کا مل کر کوئی حل بھی تجویز کیا جا سکے۔ گزشتہ چار سال کے دوران کابینہ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی بہت کم میٹنگز ہوئیں باوجود اس کے کہ پاکستان کو کئی بیرونی اور اندرونی خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں کی ہی بات کر لیں تونیوز لیکس اور فوجی ٹوئٹ کے تنازعہ کے علاوہ پاکستان کو افغانستان اور ایران کی طرف سے کافی سخت رویوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح بھارت نے پاکستانی فوج پراس کے فوجیوں کو مارنے اور اُن کی لاشوں کے ٹکڑے کرنے کا الزام لگایا۔ یہ وہ معاملات ہیں جن کو کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع اور سکیورٹی کے سامنے رکھا جانا چاہیے تھا تاکہ سول اور فوجی قیادت مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی مرتب کریں جس سے ایک طرف ایران اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری آئے تو دوسری طرف ہم اپنے دشمن بھارت کی پاکستان مخالف چالوں کو ناکام بنا سکیں۔

.