باپ کی موت،بیٹے کی ملازمت کی شرط؟

May 25, 2017

پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں کے 59 سالہ باپ اور وفاقی وزرات داخلہ کے نائب قاصد محمد اقبال کا بیٹے کی ملازمت کے لیے باپ کی موت کی شرط پوری کرنے کی خاطر گزشتہ روز دفتر کی چھت سے چھلانگ لگاکر جان دے دینے کا روح فرسا اور دلدوزواقعہ ہمارے معاشرے میں انسانی مسائل کو سنگ دلی کے ساتھ نظر انداز کرنے اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ سرکار ی دفاتر کے روایتی سرخ فیتے کے چکر اور غیرانسانی رویہ اپنائے جانے کی ایک ایسی مثال ہے جس سے مروجہ نظام کی بے حسی اور سفاکی پوری طرح عیاں ہے۔ سرکاری کوارٹر میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر وزارت داخلہ کا یہ ملازم بیماری کے باعث ساڑھے چار ماہ سے چھٹی پر تھا۔بائیس مئی کو اس نے چھٹی ختم ہونے پر پنشن سے پہلے کی ایک سال کی رخصت کی درخواست دی ، منگل کو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ دفتر پہنچا اورمتعلقہ افسر سے بیٹے کی ملازمت کیلئے بات کی تاکہ اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری کوارٹر کی شکل میں اس کے گھرانے کو سرچھپانے کا ٹھکانہ میسر رہے۔ اسے بتایا گیا کہ باپ کی جگہ بیٹے کی ملازمت کیلئے ضروری ہے کہ باپ کا دوران ملازمت انتقال ہوجائے۔ اس شرط کے علم میں آنے کے بعد محمد اقبال بیٹے کو وہیں چھوڑ کر پاک سیکریٹریٹ کے آر بلاک کی چھت پر پہنچا اور تیس فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگادی،اسے شدید زخمی حالت میں پولی کلینک پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا ۔ تاہم اس طرح اس نے بیٹے کی ملازمت کیلئے عائد شرط ضرور پوری کردی ہے جس کے بعد قانون کے تحت اس کے بیٹے کوملازمت مل جائے گی اور اس کے لواحقین سرچھپانے کے ٹھکانے سے بھی محروم ہونے سے بچ جائیں گے۔یہ کہانی ایک محمد اقبال کی نہیں اس سنگ دل نظام کے شکار لاتعداد افراد کی ہے ۔ یہ صورتحال ہمارے آئین اور انسانیت کے تقاضوں سے صریحاً متصادم ہے اور اس میں ایسی فوری اور انقلابی اصلاحات ناگزیر ہیں کہ آئندہ کسی محمد اقبال کو بیٹے کی ملازمت کی قیمت اپنی جان کی شکل میں نہ چکانی پڑے۔

.