مسلم ممالک کے تنازعات کا حل:افہام و تفہیم

July 22, 2017

عالم اسلام میں پچھلے چند برسوں کے دوران اختلاف و انتشار میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تشویش اور اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے۔عراق ، شام ، یمن اور لیبیا میں برسوں سے خانہ جنگی اور خوں ریزی جاری ہے، سعودی عرب اور ایران کے اختلافات کو دور کرنے کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ خلیجی تعاون کونسل کے اہم رکن قطر کے خلاف سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی جانب سے ایران کے ساتھ روابط نیز حماس اور اخوان المسلمون سمیت بعض تنظیموں کی حمایت کے الزام میں بائیکاٹ کی کارروائی نے صورت حال کو مزید ابتر کیا ہے ۔اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کویت نے ایرا نی سفیر سمیت پندرہ ایرانی سفارت کاروں کو اڑتالیس دنوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔کویت کے خبررساں ادارے کونا کے مطابق یہ فیصلہ ایرانی سفارت کاروں کے ایک دہشت گرد گروپ کے ساتھ رابطوں کا پتہ چلنے کے بعد کیا گیا ہے۔کویت نے ایران کے خلاف یہ قدم امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے دہشت گردی کے سالانہ عالمی جائزے کے اجراء کے فوراً بعد اٹھایا ہے۔ اس رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ نے طالبان ، داعش اور القاعدہ کو دہشت گردی کا مرکزی مجرم اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت کے سبب دہشت گردی کا سرپرست ملک قرار دیا ہے۔ جبکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے بے مثال اور انتہائی نتیجہ خیز کاررکردگی کے باوجود رپورٹ میں اس شکایت کا اعادہ کیا گیا ہے کہ طالبان کے بعض گروپوں اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف مطلوبہ اقدامات نہیں کیے گئے اور ان کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں اب تک موجود ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے حقائق کے یکسر منافی اس شکایت کی ایک بار پھر پرزور تردید کرتے ہوئے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ افواج پاکستان نے دہشت گردی کے تمام ٹھکانوں کا خاتمہ کرکے شمالی علاقوں میں ریاستی رٹ پوری طرح بحال کردی ہے اور حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے تمام گروپوں کے ٹھکانے اب افغانستان ہی میں ہیں جس کے یقینی ثبوت و شواہد منظر عام پر آچکے ہیں جبکہ پاکستان میں بچے کھچے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے ملک بھر میں جاری آپریشن ردالفساد کے تحت آپریشن خیبر فور شروع کیا گیا ہے جس کے نہایت حوصلہ افزاء نتائج سامنے آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں دہشت گردی کی موجودہ صورت حال میں خود امریکی پالیسیوں کا بڑا حصہ ہے۔فلسطین اور کشمیر کے مسائل کے منصفانہ حل سے امریکہ کی مسلسل روگردانی، افغانستان اور عراق پر تباہ کن فوج کشی ، فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجود اس کی ذمہ دار ریاستوں اسرائیل اور بھارت کی مستقل ناز برداری،اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو بین الاقوامی تنازعات کے حل میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لئے مطلوبہ اختیارات دلوانے کے معاملے میں کسی نتیجہ خیز اقدام سے گریز اور بڑی طاقتوں کے لئے ویٹو کا حق برقرار رکھ کر اس عالمی ادارے کو ان کے مفادات کے مطابق ان مرضی کا پابند بنائے رکھنا جیسے حقائق کی موجودگی میں مسلم دنیا کی قیادت کو اپنے اختلافات کے حل کے حوالے سے امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں سے کسی مثبت کردار کی ادائیگی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور اپنے باہمی معاملات افہام و تفہیم کے ذریعے خود درست کرنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ اس ضمن میں ایک قدرے امید افزا خبر یہ ہے کہ قطر کا بائیکاٹ کرنے والی عرب ریاستوں نے قطر سے کیے گئے مطالبات کی فہرست میں شامل نکات کی تعداد تیرہ سے گھٹا کر چھ کردی ہے۔ امید ہے کہ اس کے بعد قطر اور دوسرے عرب ملکوں کے درمیان بات چیت سے اختلافات کے تصفیے کا عمل شروع ہوسکے گا ۔ ایران اور عرب ملکوں کے اختلافات کے حل کے لئے بھی متعلقہ حکومتوں کو افہام و تفہیم کا راستہ اپناکر عالمی اسلامی اتحاد کی راہ ہموار کرنی چاہیے کیونکہ اختلافات کو پروان چڑھانے کا راستہ یقینی طور پر پوری مسلم دنیا کے لئے ناقابل تلافی نقصانات کا باعث ثابت ہوگا۔